• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمِ سرما میں دِن سکڑ جاتا ہے،راتیں پھیل جاتی ہیں۔ حالاں کہ سورج مشرق سے طلوع ہوکر مغرب ہی میں ڈوب رہا ہوتا ہے، مگر اس کی گردش کا دورانیہ بدل جاتا ہے اوراسی موسمی تبدیلی کے باعث نزلہ زکام اور کھانسی کی شکایات عام ہوجاتی ہیں۔ علا وہ ازیں، لوگوں کے مزاج میں سُستی کا احساس پیدا ہوجاتا ہے،کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ کوشش ہوتی ہے کہ بستر ہی کو اوڑھنا بچھونا بنالیا جائے، لیکن بعض اوقات چڑچڑاپَن اور ڈیپریشن اس قدر غالب آجاتا ہے کہ کاموں میں عدم دِل چسپی اور توانائی میں شدیدکمی محسوس ہوتی ہے، بھوک بھی کم لگتی ہے، جس کی وجہ سے وزن کم ہونے لگتا ہے۔

کاموں پر توجّہ دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگران علامات میں شدّت پیدا ہوجائے، تو موت اور خودکُشی کے خیالات بھی آنے لگتے ہیں۔دُنیا بَھرمیںیہ طبّی مسائل عام ہیں، جو متعدد افراد کو موسمیاتی تبدیلیوںکے باعث متاثر کرتے ہیں،اسی لیے اسے طبّی اصطلاح میں سیزنل ایفکٹیو ڈس آرڈر(Seasonal Affective Disorder) کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔یعنی موسم سے متاثر کرنے والا مسئلہ۔عام طور پر اس سے مَردوں کی نسبت خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

اگرچہ سیزنل ایفکٹیو ڈس آرڈر کی علامات کسی بھی موسم کی دوسرے موسم میں تبدیلی کے سبب ظاہر ہوتی ہیں،لیکن پاکستان جیسے مُمالک میں یہ موسمِ سرما میں زیادہ ظاہر ہوتی ہیں، کیوں کہ عام دِنوں میں عموماً درجۂ حرارت گرم رہتا ہے۔ زیادہ عرصے گرمی رہتی ہے،تو سرد موسم طبیعت یا مزاج کے لیے نیا ہوتا ہے،جس کے نتیجے میں موسمی تبدیلیاں مزاج پر اثر انداز ہونے لگتی ہیں۔

البتہ دُنیا بَھر کے اعدادوشمار کے مطابق، موسمِ سرما اور خزاں کے آغاز پر موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ماہرین کا ایک خیال یہ ہے کہ سردیوں میں چوں کہ دِن کی طوالت کم ہوجاتی ہے، تو دماغ کے ایک خاص حصّے کوجو "Hypothalamus" کہلاتا ہے، جتنی مقدار میں روشنی درکار ہوتی ہے، اس میں کمی واقع ہونے سے وہ درست طور پر کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جسم کی اندرونی گھڑی بھی متاثر ہوجاتی ہے اور میلاٹونن (Melatonin) اور سیروٹونن (Serotonin)کی افزایش کم ہوجاتی ہے،لہٰذا مذکورہ جذباتی اور جسمانی کیفیات ان ہارمونز میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ خاص طور پر یاسیت یا ڈیپریشن پیدا ہوتا ہے۔

سیزنل ایفکٹیو ڈس آرڈر کے تین بڑے اسباب ہوسکتے ہیں۔ایک وجہ موروثیت ہے کہ اگر خاندان میں چند افراد اس مسئلے کا شکار رہے ہوں، تو اس بات کا امکان ہوسکتا ہےکہ آپ بھی اس میں مبتلا ہوجائیں۔بعض کیسز میں گھر کا کوئی فرد ڈیپریشن کا مریض ہو، تو اسے دیکھ کربھی سردیوں میں افرادِ خانہ میں یہ موسمی شکایت بڑھ جاتی ہے۔ اگرکوئی فرد عُمر کے کسی حصّے میں ڈیپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر کا شکارہوا ہو، تو ممکن ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے باعث سیزنل ایفکٹیو ڈس آرڈرسے متاثر ہوجائے۔ 

اسی طرح خطِ استوا (Equator) سے دُور خِطّوں میں رہنے والے افراد بھی اس مرض کا زیادہ شکار ہوجاتے ہیں، کیوں کہ ان علاقوں میں موسم بہت سرد ہوتا ہے۔ سردیوں میں سورج کی روشنی بہت کم یا بالکل ہی نہیں ہوتی اور موسمِ گرما میں دِن بہت طویل ہوتے ہیں۔ یعنی موسمی عدم توازن اپنی انتہا پر ہونے کی وجہ سے ان خطوں کے رہایشی اس مسئلے کا شکار ہوسکتے ہیں۔

اگرخدانخواستہ آپ یا آپ کے کسی عزیز میں یہ علامات پائی جاتی ہیں، توانھیں معمولی جان کر نظرانداز کریں، نہ علاج کے معاملے میں لاپروائی برتیں۔ کیوں کہ ڈیپریشن کی دوسری اقسام کی طرح اگر سیزنل ایفکٹیو ڈس آرڈر کا علاج نہ کیا جائے، تو یہ وقت کے ساتھ سنگین ہوتا چلا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل بڑھ جاتے ہیں،جس کی وجہ سے مریض اردگرد کے لوگوں سے ملنے جُلنے سے کتراتا ہے، دفتر کے کام خوش اسلوبی سے انجام نہیں دے پاتا، اگر کوئی طالبِ علم اس کا شکار ہو، تو پڑھ نہیں پاتا۔

بعض مریض نشہ آور اشیاء استعمال کرنے لگتے ہیں۔ خاص طور پر نظامِ ہضم کے شدید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں،تو خودکُشی یا خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات دماغ پر طاری ہوجاتے ہیں۔اس کے حل کے لیےسب سے پہلے توکسی ماہرِ نفسیات یا ماہرِ ذہنی امراض سے رجوع کیا جائے۔بلاشبہ علاج کےلیےکئی ادویہ بہت مؤثر ہیں، لیکن یہ وقتی افاقہ دیتی ہیں۔ ان کی نسبت چند گھریلو اورآسان تدابیر زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ مثلاً:

گھر میں روشنی کا ایک ڈبّا(یعنی Light Box)تیار کرلیں اور دِن رات اس کے قریب بیٹھ کر اپنی روشنی کی ضرورت پوری کی جائے۔ روشنی کے ساتھ ساتھ اس کی حرارت سے بھی سکون ملے گا اور نفسیاتی اور جذباتی علامات بھی رفع ہوں گی۔علاوہ ازیں،سائیکو یا ٹاک تھراپیز بھی بےحد مؤثر ثابت ہوتی ہیں،کیوں کہ ان تھراپیز میں ماہرِنفسیات مریضوں سے گفتگو کے ذریعےسیزنل ایفکٹیو ڈس آرڈر کے جذباتی اور نفسیاتی اثرات کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں مریض کو اپنے ڈیپریشن یا اینزائٹی پر قابو پانے میں بہت مدد ملتی ہے۔

علاوہ ازیں، مائنڈ تھراپی کی تیکنیک کی بھی افادیت سے انکار نہیں کہ ان مشقوں کے ذریعے جسم اور دماغ کو متحرک اور فعال کرنے کا فن سکھایا جاتا ہے اور یوں متاثرہ فرد اپنے مذکورہ مسئلے پر گھر بیٹھے قابو پانا سیکھ جاتا ہے۔ان مشقوں میں یوگا، مراقبہ، تصوّر یا آرٹ تھراپی وغیرہ شامل ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان میں سوائے یوگا کے دیگر طریقۂ علاج معروف نہیں، لیکن دیگر مُمالک میں انھیں بہت اہمیت دی جاتی ہے اور ان کا استعمال باقاعدہ تھراپی کے طور پر کیا جاتا ہے۔

(مضمون نگار، فلاحی تنظیم ’’ٹرانس فارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی‘‘ کے بانی ہیں اور گزشتہ پچیس برس سے پاکستان، کینیڈا سمیت دیگر مُمالک میں، خاص طور پر ذہنی صحت کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں)

مضمون نویس معالجین توجّہ فرمائیں!!

سنڈے میگزین کے سلسلے’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں لکھنے کے شائق، معالجین سے درخواست ہے کہ اپنے مضامین کے ساتھ، اپنی پاسپورٹ سائز واضح تصاویر بھیجیں اور مکمل تعارف اور رابطہ نمبر بھی لازماً تحریر کریں۔ہماری پوری کوشش ہے کہ اپنے اسی سلسلے کے ذریعے قارئین کو مختلف امراض اور عوارض سے متعلق جس قدر بہترین، جامع اور درست معلومات فراہم کرسکتے ہیں،ضرور کریں، مگر بعض اوقات ڈاک سے موصول ہونے والی کچھ تحریروں میں لکھی جانے والی مخصوص طبّی اصطلاحات یا کسی ابہام کی تصحیح یا درستی کے لیے مضمون نگار سے براہِ راست رابطہ ضروری ہوجاتا ہے، لہٰذاتمام مضمون نویس اپنی ہر تحریر کے ساتھ اپنا رابطہ نمبر ضرور درج کریں۔اپنی تحریریں اس پتے پر ارسال فرمائیں:

ایڈیٹر،سنڈے میگزین، صفحہ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘روزنامہ جنگ، شعبۂ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ ، کراچی۔

ای میل: sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین