• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زہرہ نگار نے کہا کہ حکایت ہے کہ کیمیا بنانے والوں کو یہ ہدایات دی گئی تھیں کہ کیمیا بنانے کے دوران اگر بندر کا خیال آ گیا تو سارا سودا کھوٹا پڑ جائے گا۔ بس پھر یہی ہوتا رہا ۔ لوگ کیمیا بنانے کی کوشش کرتے رہے اور آخر بندر کے خیال سے سارا کیا کرایا ملیا میٹ ہوتا رہا۔ پھر آخر ایک شخص کیمیا بنانے کی آخری منزل پہ پہنچا اور چہک کے بولا ،مجھے بندر کا خیال آیا ہی نہیں، بس پھر کیا تھا۔ سب خاک میں مل گیا۔ بندر کی حکایت سن کر اب تو انتظار حسین صاحب بھی چہکے اور جا تک کہانیاں سنانے لگے۔ مہاتما بدھ سے منسوب ان کہانیوں کا سلسلہ لوگ لطف لیکر سنتے رہے مگر کہاں، ارے یہ تو بتانا بھول ہی گئی۔ بھئی جسے کہتے ہیں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا ۔ بس یہی عالم تھا کراچی لٹریچر فیسٹول میں۔ کیا بوڑھا اور کیا نوجوان،کون تھا جو موجود نہیں تھا۔ 8ہالز میں روزانہ کم از کم چھ سیشن ہوتے تھے۔ سیاست میں سیکولر ازم سے لیکر افغانستان تک کے معاملات پر زور دار بحثیں ہوئیں۔ عاصمہ سے لیکر نجم سیٹھی اور نجم الدین شیخ، سب ہی نے سیاسی ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ادھر بچوں کے لئے بھی کوئی چالیس سیشن ہوئے۔ بچوں نے ادھوری پینٹنگز کو مکمل کیا ادھوری لکھی ہوئی کہانیوں کو مکمل کیا حتیٰ کہ کارٹون بنا کر بڑوں کو سکھایا کہ وہ بھی ان کی طرح ذہنی بلوغت کے ساتھ کام بھی کریں اور سوچا بھی کریں۔
ڈرامہ ریڈنگ اور ڈرامہ کرنے کا مکمل کام مع ڈانس شیما کرمانی کے ہاتھ میں تھا۔اول دن تو انہوں نے ٹیگور کو خراج عقیدت پیش کیا پھر منٹو کی زندگی پر مبنی ڈرامہ اسٹیج کیا جس میں عصمت چغتائی اور منٹو کی گفتگو پیش کی گئی۔ اگلے دن شیما نے انتظار حسین کا لکھا ہوا ڈرامہ ”پانی کے قیدی“ کی ڈرامائی ریڈنگ کی۔ اب ذکر آ گیا انتظار حسین کا تو یہ سمجھیں کہ ساری تقریبات تھیں انتظار حسین کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے کہ پہلے دن ہی دو ہزار سے زائد خواتین و حضرات نے اسٹینڈنگ اویشن انتظار حسین کو پیش کیا اور تقریباً دو منٹ تک سارا مجمع تالیاں بجاتا رہا۔ ہم سب کا سر فخر سے بلند ہو گیا مگر انتظار حسین تو اس طرح تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ انتظار حسین کے ساتھ ایک دن پہلے شام منائی گئی جس میں ہندوستان سے تشریف لائے شمیم حنفی نے کہا کہ حکایت، سیاست، جدیدیت اور حسیت ،سب طرز احساس انتظار صاحب کا اسلوب ہیں۔
ارے شمیم صاحب کا ذکر آیا ہے تو سنیں کہ ہر تقریب میں ان کو بولنے کے لئے کہا جاتا تھا چاہے وہ سامعین کی صف میں بیٹھے ہوں، چاہے وہ چائے پینے کے لئے نکلے ہوں کہ کھانے کے لئے جانے کو بھیڑ سے جان بچا رہے ہوں۔ سارے ٹی وی کیمرے ان کا پیچھا کرتے رہے، ویسے تو ٹی وی کیمرے نجم سیٹھی، عاصمہ جہانگیر اور مستنصر حسین تارڑ کا بھی پیچھا کرتے رہے۔ آپ کہیں گے کہ یہ مستنصر کا تذکر ہ کہاں سے آگیا۔بھئی سچ پوچھیں تو جتنے آٹو گراف مستنصر کے لینے کے لئے نوجوان لڑکے لڑکیاں حلقہ بنائے کھڑے ہو جاتے تھے،اتنا ہجوم کہیں اور نہیں دیکھا۔ البتہ گلزار صاحب آتے تو پھر دیکھا جاتا کہ ادھر جاتا ہے یا کہ اس طرف پروانہ آتا ہے۔ حوری نے دانیال کی جانب سے گلزار صاحب کی ساری کتابیں شائع کی تھیں۔ سب کی سب دھری رہ گئیں کہ وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا، گلزار آئے ہی نہیں۔ میں جس قدر گلزار صاحب کو جانتی ہوں کہ وہ تنہا شخص نرگسیت کا بھی شکار ہے کسی مجمع میں نہ وہ خود کو سہار سکتے ہیں اور نہ خود کو پُرسکون محسوس کرتے ہیں۔ لوگ منتظر ہی رہے اور وہ واپس چلے بھی گئے۔
سب سے دلسوز سیشن فلسطینی ڈاکٹر اور مصنف ڈاکٹر المیش کا۔ ہر سننے والا آبدیدہ تھا اور وہ بار بار اپنے آنسو اس بیان کے ساتھ پونچھ رہے تھے کہ کس طرح بم گرا، ان کی تینوں بیٹیاں اور بھتیجیاں شہید ہو گئیں۔ کس طرح ان کا 12سالہ بیٹا اسی عمر میں خون خشاں آنکھوں سے بار بار کہتا ہے کہ میں اپنی بہنوں کا بدلہ لوں گا۔ کس طرح اور کن عذابوں سے گزر کر وہ روز غزہ کے اسپتال میں کام کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ ہر چند کہ کچھ اسرائیلی ان کے دوست بھی ہیں مگر پھر دوست کہتے ہوئے وہ ہچکچائے اور کہا ساتھ کام کرنے والوں کو دوست تو نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر المیش کی کتاب کی ساری کاپیاں فروخت ہو گئی تھی۔ جب وہ اپنی بیٹیوں کے بارے میں المناک نظمیں سنا رہے تھے تو ان کی آواز کانپ رہی تھی۔
مگر یہ منظر نامہ تو ہر روز کراچی اور کوئٹہ میں بھی ہوتا ہے کرانی روڈ پر83 لاشیں دیکھ کر کس کادل بھر نہیں آیا ہو گا۔ کراچی والے کہتے ہیں،ہم تو عادی ہو گئے ہیں۔ روز دس بارہ تقریبات ہوتی ہیں اور روز دس بارہ بندے بے موت مارے جاتے ہیں۔ بالکل بیروت والا منظر لگتا ہے یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس طرح کا تین دن چلنے والا لٹریچر فیسٹیول ، جس میں کسی وقت بھی ہزاروں کی تعداد کم نہ ہوتی تھی۔ وہ ایک ادارہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور ایک شخص جو کہ اپنی ذات میں انجمن، مدیر، مصنف، ،ایڈیٹر اور نہ جانے کیا کیا ہے۔ اس کا نام ڈاکٹر آصف فرخی ہے۔ان دونوں نے مل کر ایسی تقاریب کا اہتمام کیا کہ کم از کم سال بھر ان تقریبات کا ذائقہ زبان پر رہے گا۔ کراچی آرٹس کونسل کے علاوہ نہ کوئی سرکاری شخص اور نہ کوئی سرکاری ادارہ موجود تھا۔ کمال یہ بھی ہے کہ یہ پروگرام وقت پر شروع اور وقت پر ختم ہوتا تھا۔
تازہ ترین