• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 6ماہ سے نافذ مکمل لاک ڈائون، مسلسل کرفیو، ظالمانہ فوجی آپریشن اور نئی دہلی کی ہندوتوا مودی سرکار کے فاشسٹ ہتھکنڈوں سے کشمیری عوام کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے تو دوسری طرف ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن کے اس طرف آزاد کشمیر کی پُرامن دیہی آبادی پر بھارتی فورسز کی بھاری ہتھیاروں سے بڑھتی ہوئی گولہ باری اور فائرنگ سے جنگ جیسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے جو کسی وقت بھی پاک بھارت بڑی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے، جس سے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کا امن دائو پر لگ جائے گا۔ عالمی دارالحکومتوں میں اس خطرے کا بجا طور پر نوٹس لیا گیا ہے اور امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس سمیت تمام بڑے ممالک نے اس کے تدارک کیلئے پُرامن مذاکرات پر زور دیا ہے جو ایسے تنازعات کے حل کا فطری تقاضا ہیں۔ چین کی تحریک پر سلامتی کونسل کے بھی دو خصوصی اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جن میں اقوام متحدہ کے اس سب سے موقر ادارے کے 5مستقل اور 10غیر مستقل ارکان نے جموں و کشمیر کے پون صدی پرانے قضیے کو کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے مگر بھارت اب بھی امن کے بجائے کشیدگی بڑھانے پر تلا ہوا ہے جس کی طرف وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں ایک بار پھر دنیا کی توجہ دلائی اور خبردار کیا کہ بھارت اسی طرح جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرتا رہا، بھارتی فوج بلا اشتعال بار بار حملے کر کے نہتے معصوم شہریوں کو نشانہ بناتی اور انہیں شہید کرتی رہی اور قتلِ ناحق کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا تو پاکستان کیلئے خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہنا مشکل ہو جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے واقعات میں تیزی آ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ پلوامہ واقعے کی طرز پر بھارت ’فالس فلیگ آپریشن‘ کے خود ساختہ حملے کو بہانہ بناکر جنگ جیسی صورتحال پیدا کر سکتا ہے جس پر پاکستان کو جوابی کارروائی کرنا پڑے گی۔ ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ مداخلت کرے۔ سلامتی کونسل بھارت پر عالمی ادارے کے عسکری مبصر مشن کی مقبوضہ کشمیر میں فی الفور واپسی کیلئے دبائو ڈالے اور کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیر سرگرمیوں سمیت مقبوضہ ریاست کی صورتحال کے متعلق آنکھوں دیکھی اور درست معلومات تک رسائی حاصل کرے۔ عمران خان عالمی برادری خصوصاً بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر اور کنٹرول لائن کی سنگین صورتحال سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر آگاہ کر چکے ہیں جس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔ جمعہ کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی تمام ارکان نے معاملہ کی نزاکت کو اجاگر کیا۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بریفنگ میں بتایا ہے کہ سلامتی کونسل کے ارکان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا پُرامن حل تلاش کیا جائے۔ چین اس حوالے سے پاکستان اور بھارت‘ دونوں سے رابطے میں ہے جو اس کی مثبت سوچ کی دلیل ہے۔ عالمی برادری خصوصاً سلامتی کونسل کو وزیراعظم عمران خان کے انتباہ کا اس کے سیاق و سباق میں گہرائی سے جائزہ لینا چاہئے اور برصغیر کو جنگ کے خطرات سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان اور بھارت کے تقریباً پونے دو ارب عوام کا اصل مسئلہ غربت ہے۔ پاک بھارت تعلقات معمول پر آنے سے برصغیر میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یہی بات وزیراعظم نے اقتدار سنبھالتے وقت نریندر مودی سے بھی کہی تھی جو ان کی سمجھ میں نہیں آئی اور مودی نے مقبوضہ کشمیر کو غیر آئینی طور پر بھارت میں ضم کرکے امن کے راستے مسدود کر دیے۔

تازہ ترین