حال ہی میں ایک ٹی وی چینل پر خبریں پڑھتے ہوئے ایک خاتون نے اطلاع دی کہ ــ’’ فلاں ملک میںایک کان کے دھنسنے کے سبب وہاںکام کرنے والے اتنے کان ’’کُن ‘‘ زیرِ زمین پھنس کر رہ گئے ہیں۔ افسوس کہ انھوں نے کان کَن میں کَن (کاف پر زبر ) کا تلفظ کَن کی بجاے کُن (کاف پر پیش ) کیا۔
شاید انھیں یہ خیال رہا ہو کہ جس طرح کار کُن میں کاف پر پیش ہے اسی طرح کان کَن میں بھی کاف پر پیش ہوگا ،لیکن یہ خیال غلط ہے۔دراصل کارکُن میں کُن(کاف پر پیش ) تو فارسی کے مصدر کردن (یعنی کرنا ) سے ہے اور اس کا مفہوم ہے جو کرے، کرنے والا۔گویا کا رکُن کا لفظی مفہوم ہے : جو کام کرے، کام کرنے والا یا والی۔لیکن کان کَن میں کَن (کاف پر زبر) فارسی کے مصدر کَندن (یعنی کھودنا ) سے ہے اور کَن کا مفہوم ہے جو کھودے، کھودنے والا یا والی۔ کان کَن کا لفظی مفہوم ہے کان کھودنے والا۔ کان کن کو اکثر ملاکر یعنی کانکن بھی لکھاجاتا ہے۔فارسی کی ایک ایسی کہاوت بھی اردو میں استعمال ہوتی ہے جس میں لفظ کَندن آتا ہے اور وہ ہے : کوہ کَندن و کاہ برآوردن ، یعنی پہاڑ کھودنا اور تنکا نکالنا۔ یعنی ایسا کام کرنا جس میں سخت محنت ہو لیکن ذرا سا فائدہ ہو۔ اسے اردو میں کہتے ہیں کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔
کَن اور کُن دونوں فاعلی لاحقے ہیں اور ان دونوں لاحقوں سے کئی مرکبات بنتے ہیں جو اردو میں بھی رائج ہیں ، مثلاً کُن (کاف پر پیش کے ساتھ ،بمعنی کرنے والا)کے لاحقے سے بننے والے جو مرکبات اردو میں مستعمل ہیںان میں سے کچھ یہ ہیں: فیصلہ کُن (جو فیصلہ کرے ، جس کی بِنا پرکوئی بات طے ہوجائے)، حیران کُن (جو حیران کرے ، مراداً بہت عجیب ) ، خوش کُن (خوش کرنے والا)، دل خوش کُن (دل خوش کرنے والا یا والی، یہ اکثر واقعے یا اطلاع کے لیے آتا ہے )، کار کُن ، پریشان کُن وغیرہ۔کُناں کا لاحقہ بھی فارسی کے کَردن (یعنی کرنا)سے ہے اور کُناںکامطلب ہے ’’کرتا ہوا ، جو کررہا ہو ‘‘۔یہ لاحقہ ماتم کُناں، فریاد کُناں، جلوہ کُناں،نالہ کُناں ، سیر کُناں ، جنگ کُناں، رقص کُناں اور وجد کُناں جیسے مرکبات میں جلوہ کُناں ہے۔
جبکہ کَن ( کاف پر زبر کے ساتھ ، بمعنی کھودنے والا) کے لاحقے سے بننے والی درج ِ ذیل تراکیب اردو میں ملتی ہیں : کوہ کَن ( یعنی پہاڑ کھودنے والا، مراد ہے فرہادجس نے کوہ یعنی پہاڑ میںدودھ کی نہر کھودی تھی، کوہ کن کو ملا کر یعنی کوہکن بھی لکھا جاتا ہے )، گور کَن (گور یعنی قبر کھودنے والا) ،مُہر کَن( یعنی مُہر کھودنے والا)۔ اردو میں بیخ کَن کی ترکیب بھی استعمال ہوتی ہے ، بیخ کے معنی ہیں جڑ ، اصل، بنیاد۔ گویا بیخ کَن کا مطلب ہے جڑ کھودنے والا، تباہ کرنے والا۔ اسی سے بیخ کَنی(کاف پر زبر کے ساتھ) کی ترکیب بنی یعنی جڑ یا بنیاد کھودنے کا عمل ، مراد ہے کسی چیز کو جڑ سے مٹانا ، مثلاً :جرائم کی بیخ کَنی ضروری ہے۔ جاں کَنی اور مُہر کَنی میں بھی یہی کَنی ہے۔
یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ یہاں لفظ ’’کُن ‘‘فارسی کا کُن ہے اور فارسی میں یہ بطور امر (یعنی’’ کر‘‘یا ’’ کرو ‘‘کے مفہوم میں)بھی آتا ہے۔گو عربی میںبھی ’’کُن‘‘ امر کا صیغہ ہے لیکن عربی میں اس کا مفہوم ہے : ہوجا، بن جا۔ اسی لیے ’’کُن فَکان‘‘ (جسے اردو میں کُن فکاں یعنی نون غنے کے ساتھ بھی لکھتے ہیں) کی عربی ترکیب کا مطلب ہے ’’ہوجا پس وہ ہوگیا ‘‘۔ کُن فَیکون کا مطلب ہے ’’ ہوجا پس وہ ہوجاتے ہیں‘‘ ۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کارکُن میں تو ’’کُن ‘‘(یعنی کاف پر پیش ) ہے لیکن کان کَن یا کانکن میں ’’کَن ‘‘(یعنی کاف پر زبر) ہے۔