جگرمراد آبادی
ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توڑ تاڑ کے تھرا کے پی گیا
زاہد! یہ تیری شوخئ رندانہ دیکھنا
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستئ ازل مجھے جب یاد آگئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا
آزردگئ خاطر ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا
اے رحمت تمام مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیر اذن یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشم یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جان مے کدہ کی قسم بارہا جگرؔ
کل عالم بسیط پہ میں چھا کے پی گیا