• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے زندگی … غفار انقلابی
عالمی اقتصادی فورم کے دوران بین الاقوامی میڈیا کونسل سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کشمیر کے معاملے پر بات ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے اور خبردار کیاکہ لائن آف کنٹرول پر یہ کشیدگی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیرمیں نریندر مودی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے حالات بہت خراب ہوچکےہیں۔ مودی حکومت نے 80 لاکھ کشمیریوں کو کئی ماہ سے گھروں میں بند کر رکھا ہے انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیتے ہوئےکہا کہ عالمی فورم کو چاہیے کہ کنٹرول لائن پرفوجی مبصرین کو تعینات کرے۔ انہوں نے پاکستان کے اس موقف کو دھرایا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے جب کہ بھارت کے ساتھ تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت میں مصالحت کرانے کی اپنی پیشکش کو دوھرا چکے ہیں یاد رہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کے بعد سے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کئی ایک ملاقاتیں ہوچکی ہیں جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ بھارت اور پاکستان کے بیچ کشمیر کے مسئلے پر مصالحتی کردار ادا کر نے کےلئے تیار ہیں بشرطیکہ دونوں فریقین اس کے لئے آمادہ ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کشمیرکا معاملہ ہر فورم پر اٹھا رہے ہیں اور ہر فورم پر کامیابیاں بھی ہو رہی ہیں۔ کشمیر کے معاملے پر اپریل میں OIC کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے تین اجلاس بلانے کی کوششیں ہوچکی ہیں، ایک اجلاس کو فرانس نے اس لئے ناکام بنایا کہ رافیل طیارے مودی کو فروخت کرکے فرانس اربوں کھربوں ڈالر کماچکاہے۔حالیہ اجلاس میں بھی فرانس اور برطانیہ نے کوئی فیصلہ نہ ہونے دیا کیونکہ مغربی دنیا کی اسلحہ فیکٹریاں اس وقت تک چلتی رہیں گی جب تک کشمیر کا مسئلہ چلتا رہے گا۔ البتہ سیکورٹی کونسل نے بھارت کی شدید مخالفت کے
باوجود اقوام متحدہ کے فوجی اور سیاسی مبصرین جوکہ کشمیر کی جنگ بندی لائن کے دونوں طرف تعینات ہیں کا بجٹ منظور کر لیا ہے اور عمران خان نے بجاطور پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر میں جنگ بندی لائن کے دونوں طرف فوجی مبصرین تعینات کئے جائیں تاکہ کشیدگی کے ماحول کو مانیٹر کیا جاسکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ دوستی اور سیکورٹی کونسل کے اجلاس اور چین اور روس کی کشمیریوں کے حقوق کی حمایت کرنے کے باوجود کشمیر میں ظلم کی اندھیری رات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔خود بھارت کی اپنی سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ آپ غیر معینہ مدت کے لئے دفعہ 144 نہیں لگاسکتے اور انٹرنیٹ بند نہیں کر سکتے مگر مسلمانوں کی نسل کشی کے ماہر نریندر مودی کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اب تو کشمیری بچوں کے حراستی کیمپوں تک بات پہنچی ہےاور مسلمانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے آر ایس ایس کے جنونی ایک کروڑ مسلمانوں کو بھارتی شہریت سے محروم کرنے کے عملی اقدامات شروع کر چکے ہیں مگر بھارت کی انصاف پسند اور ترقی پسند سول سوسائٹی نریندر مودی اور امیت شاہ کے نسل پرستانہ سوچ کے خلاف متحد ہو چکی ہے۔آج بھارت کی عورتیں،بچے، بوڑھے، جوان ،ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اپنے گھروں کی بجائے سڑکوں پر ہیں۔ ہرچھوٹا بڑا شہریت ترمیم کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور وہ آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ جینوسائیڈ واچ( Genocide Watch) کے مطابق نسل کشی کے دس انڈیکیٹر میں سے بھارتی کے حکمران آٹھ تک پہنچ چکے ہیں - وزیر اعظم پاکستان عمران خان آر ایس ایس کی مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم کے بیچ دنیا اور بالخصوص برصغیر میں امن اور ترقی کی مہم چلا رہے ہے جس میں اولیت کشمیریوں کے حق حکرانی اور حق ملکیت کو حاصل ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اندرون ملک یکجہتی پیدا کی جائے، عمران خان کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں تاکہ فاشسٹ مودی حکومت کو کشمیر میں اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی سے روکا سکے۔ مودی اور آر ایس ایس کے جنونی آسانی سے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے اس کے لئے عمران خان کو چوکے اور چھکے مارنے ہوں گے خواہ اس کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح جان ہی نہ دینا پڑے۔ نسل کشی کے خلاف ، اسلاموفوبیاکے خلاف اور اسلام کے امن کے پیغام کو اجاگر کرنے کیلئے اسلامی سربراہی اجلاس بلانا ہوگا۔ دنیا بھر کے امن پسند اور انصاف پسند ملکوں اور لوگوں کو متحد کرنا ہوگا۔
تازہ ترین