• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عثمان بزدار نے سرائیکی صوبہ کا مقدمہ کمزور کردیا۔۔۔؟؟؟

تحریر …ظفرآہیر
شعبہ علوم اسلامیہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے درویش صفت پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمودکھوکھر اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ۔ ڈیرہ غازی خان کے علاقہ غازی گھاٹ سے تعلق رکھنے والے سلطان محمود زمانہ طالب علمی سےہی ڈیرہ غازی خان کی روایتی مہمان نوازی کا عملی نمونہ تھے۔نوے کی دہائی میں جب میں نے جامعہ زکریا میں قدم رکھاتو پروفیسر صاحب اُس وقت اپنی ڈگری تقریباً مکمل کرچکے تھے اور عمر ؓہال میں ڈیرہ جمایاہوا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن‘پروفیسر صاحب سےتعلق قائم ودائم ہے۔چند روز قبل ڈاکٹر صاحب کا فون آیا کہ وہ گریڈ اکیس میں پروموٹ ہوگئے ہیں اور اس خوشی میں یونیورسٹی کےسابقہ اور موجودہ دوستوںکے اعزاز میں دریائے چناپ کے کنارے ایک ضیافت کا اہتمام کررہے ہیں جس میں میرا آنا بہت ضروری ہے ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے وعدہ توکرلیا‘لیکن بھول گیا جمعہ کے روز علی الصبح ڈاکٹر صاحب کا یاددہانی کا فون آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا’’ مرشد ‘‘ڈاکٹر عبدالقادر بزدار بھی تشریف لارہے ہیں تو اس پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ وہ تو مہمان خصوصی ہیں یہ سُن کر تو اس ضیافت میں جانا اور بھی ضروری ہوگیا تاہم دوپہر کو بزدار بھائی کا حکم نامہ بھی آگیا کہ میں نے حاضر ہونا ہے۔وقت مقررہ پر جب چناب کے خوبصورت کنارے پر پہنچا تو یہاںایک زبردست سماں تھا۔زمانہ طالب علمی کے سارے دوست اور جامعہ کے تقریباً تمام اہم شعبہ جات کے سربراہان بالخصوص شعبہ سیاسیات کے چیئرمین ڈاکٹر مقرب اکبر،علوم اسلامیہ کےپروفیسر ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب،برادر رائو آصف حمید ایڈووکیٹ، ڈاکٹر جاوید سنگھیڑا،افتخار الحسن بھائی،عزیز بھٹہ،ندیم گجر،رائو ایوب ودیگر کو دیکھ کر زمانہ طالب علمی یاد آگیا،برادر محترم عبدالقادر بزدار صاحب جو اب جامعہ کی سینڈیکیٹ کے بھی رکن بن چکے ہیں واقعی تقریب کے روح رواں تھے،سارے کھلنڈرے اب بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہوچکے ہیں کوئی پی ایچ ڈی ہے تو کوئی جامعہ کے کسی شعبہ کے سربراہ،وائس چانسلر ڈاکٹرمنصور اکبر کُنڈی صاحب کی آمد بھی متوقع تھی تاہم وہ کسی مصروفیت کی وجہ سے نہ آسکے،میری خوش قسمتی کہ میں نے ابھی اپنی نشست سنبھالی ہی تھی کہ اردو ادب کا بڑانام اور جامعہ زکریا کے شعبہ اردو کے طویل عرصہ تک چیئرمین رہنے والےاستاد محترم ڈاکٹر انوار احمد میری ساتھ والی نشست پر تشریف فرما ہوگئےڈاکٹر صاحب سے اُلفت زمانہ طالب علمی سےہی تھی لیکن اپنی تمام تر خواہش کے باوجود ڈاکٹر صاحب کی قربت حاصل نہ کرپایا،نظریاتی اختلاف سےزیادہ کچھ دوستوں کی مہربانیاں تھیں کہ ڈاکٹر صاحب کا خصوصی قرب میسر نہ ہوسکا،اور آج قسمت سےڈاکٹر صاحب کے پہلو میں جگہ مل گئی۔ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزرے چند لمحے بھی غنیمت ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے چناب کے اس کنارے کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ ملتان کو ہر حکومت نے نظر انداز کیا ہے ورنہ ملتان اپنی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حوالہ سےسیر وسیاحت کا ایک بہت بڑا مرکز ہونا تھالیکن توجہ نہ دی گئی ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ ملتان مذہبی سیاحت کا ایک بہت بڑا مرکزبن سکتا ہے اور شعبہ سیاحت کو چاہیے کہ و ہ ملتان کے بارے میں بین الاقوامی طور پر مشتہرکرے کیونکہ ملتان دوسرا روم ہے اور وزیراعظم جو متعدد بار مذہبی ٹوارزم کی بات کرچکے ہیں کو ملتان پر توجہ دینی چاہیےکہ جہاں پر اولیاءاللہ کے سینکڑوں مزارات ہیںصرف یہی نہیں بلکہ آثار قدیمہ کے دیگر بہت سے شاہکاروں کے ساتھ ساتھ ہندئووں کا بہت پُرانا’’پرہلاد‘‘کا مندر بھی ہے جواگرچہ بابری مسجد گرائے جانے کے واقعہ کے بعد زمین بوس کردیا گیا لیکن اس کے آثار اب بھی موجود ہیں اور اس مندر کی اہمیت ہندوئوںکے لئے ایسی ہی ہے کہ جیسی سکھوں کےلئے ننکانہ صاحب کی ۔پرہلاد ملتان کے بادشاہ ہیرانیا کا شیپو کابیٹا تھا اوریہ مندروشنو دیوتا کے نام پر بنایا تھا‘ہندو جو تیرتھ یاترا کرتے ہیں وہ اس مندر کی یاترا کے بغیر نا مکمل ٹھہرتی ہےاور اگر اس مندر کے بارے میں محکمہ سیاحت کام کرے تو یہ کرتار پور راہداری سے بھی بڑا ایونٹ بنے گا۔ڈاکٹر صاحب نے ملتان کی ثقافتی،سیاحتی حیثیت کے بارے میں سیر حاصل اور علمی گفتگو کی۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ13اپریل گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کو بنے سو سال ہوجائیں گےحکومت کو چاہیے کہ وہ اس موقعہ پر کم از کم ایک یادگاری ٹکٹ ضروری جاری کرے،جب سیاحت کی بات آئی تو ڈیرہ غازیخان کےصحت افزاء مقام فورٹ منرو کاذکر بھی لازمی تھا کہ جہاں موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تحصیل ناظم رہے،اگرچہ سابقہ حکومت نے اس علاقہ کےلئے بہت کام کیا اور جاپان کے تعاون سےیہاں سٹیل کا پل بھی بنایا گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود فورٹ منرو میں سیاحوں کے لئے رہائش اور تفریح کے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے،راجن پور کا علاقہ ماڑی بھی ایک بہترین تفریحی مقام بن سکتا ہے لیکن یہ بھی مسلسل نظر انداز ہورہا ہے، اگرچہ صوبائی حکومت نے اس علاقہ کی ترقی کے لئے کچھ اعلانات بھی کیے ہیں لیکن عملی طور پر ابھی کچھ نہیں ہوا۔جب عثمان بزدار کا ذکر آیا تو جامعہ زکریا کے اساتذہ اور سابق طالب علموں کا متوجہ ہونا قدرتی امر تھا۔عثمان بزدارجو جامعہ زکریا کے شعبہ سیاسیات کے سابق طالب علم ہیں کے بارےمیں شرکاء نے اپنے اپنے خیالات کا حسیں انداز میں اظہار کیا،لوگوں کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار اتنے شرمیلے ہیں کہ وہ جس ادارے میں پڑھتے رہے وہاں آنے سے بھی شرماتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے’’جنگ‘‘ کےانہی صفحات پر شائع ہونے والے میر ےاس کالم کا ذکر بھی کیاجو عثمان بزدار کی تقریب حلف برداری کے موقع پر لکھا گیا تھاکہ جس میں کہا گیاکہ اگر یہاں سے وزیراعلیٰ بنایا ہی جارہا ہے تو پھر اُسے اقتدار کے ساتھ اختیار بھی دینا ہوگا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا ہےجیسا کہ سابقہ ادوار میں ہوتا رہا ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو اقتدار میں تو شامل کرلیا جاتاہے لیکن انہیں اختیارنہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے اس علاقہ کی محرومیاںمزید بڑھ جاتی ہیں۔اب بھی کہنے کو وزیراعلیٰ عثمان بزدارہی ہیں لیکن صوبہ کو بنی گالہ سے ہی کنٹرول کیے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں،جبکہ ناکامیاں عثمان بزدار کے کھاتہ میں لکھی جارہی ہیں۔کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ عثمان بزدار نے سرائیکی صوبہ کا مقدمہ مزیدکمزور کردیا ہے ہمیں پہلے ہی طعنہ دیا جاتا تھا کہ ون یونٹ کے سربراہ نواب مشتاق گورمانی سےلیکر فار وق لغاری اور یوسف رضا گیلانی تک متعددبار اس علاقہ کے لوگوں کو اقتدار دیا گیا لیکن یہ لوگ خوداس علاقہ کی محرومیوںکو ختم کرنے کےلئے کچھ نہیں کرسکے۔اب عثمان بزدار صاحب کو ہی لے لیں وہ یہاں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ تک نہیں بنوا سکے جبکہ وہ اپنے ذاتی کام اور خاندان کو نوازنے کے لئے بہت کچھ کررہے ہیں حتیٰ کہ محض اپنے سسر کی خوشنودی کے لئے ضلع خانیوال کے متعددافسران تبدیل کرچکے ہیں۔
جامعہ زکریا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا اجتماع ہو اور یونیورسٹی میں ہونے والی سیاست کا ذکر نہ ہو یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔شرکاء کی ایک بڑی تعداد کا مئوقف تھا کہ اساتذہ سیاست نے یونیورسٹی کو بہت پیچھے کردیا ہے اور اس سیاست کا نتیجہ تھا کہ ایک سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ جن کا علمی سطح پر بڑا نام ہے کو جیل یاترا کرنی پڑی ان کےپیش رو اور ڈاکٹر طاہر امین کو ڈپریشن کی وجہ سے قبرستان کی راہ دیکھنی پڑی۔اس لئے وائس چانسلر ڈاکٹر منصور اکبر کُنڈی کو اساتذہ سیاست سے دامن بچاتے ہوئے جامعہ کی بہتری کےلئے کام کرنا ہوگا۔اب تک ان کی کارکردگی اس حوالےسے بہترین ہے کہ وہ کسی سیاسی گروپ کا حصہ نہیں ہیںاور ڈاک اپنی میز پرنہیںرہنے دیتے اورکہاجارہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس پالیسی پر گامزن رہے تو جامعہ کو بہت آگے لےجائیں گے۔
تازہ ترین