• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمان کے عظیم سلطان قابوس بن سعید کے انتقال کی خبر نے مجھے رنجیدہ کر دیا تھا،مرحوم سلطان قابوس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہر دلعزیز لیڈر تھے۔

ان کی وفات کو عالمی میڈیا پر وسیع پیمانے پر کوریج دی گئی، اس حوالے سے میں نے انٹرنیٹ، اخبارات میں کافی کالم اور آرٹیکلز پڑھے،لیکن مجھے سب سے زیادہ متاثر جاوید چوہدری کے کالم بعنوان" یہ صرف قبر نہیں" ـ اور سلیم صافی کے کالم بعنوان ’’کیا پاکستان عمان نہیں بن سکتا ؟‘‘نے کیا۔

میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے قلم کے ذریعے انسانی تاریخ پر انمٹ نقش چھوڑ کر جانے والی عظیم شخصیات کو خراج تحسین پیش کروں اور ان کی حکمت عملی کو سمجھنے کی کوشش کروں کہ کس طرح انہوں نے اپنی محنت ،ولولے اور وژن کی بدولت اپنے ملک و قوم کی انتھک خدمت کی، ملک کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھایااوردنیا کی نظر میں اپنے معاشرے کو ایک اعلیٰ مقام دلایا ۔ 

پاکستان اور عمان کے عوام تاریخی، ثقافتی اور مذہبی بندھن میں بندھے ہوئے ہیں، سی پیک میگا پروجیکٹ کی کامیابی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا گوادر 1958ء تک عمان کا حصہ ہواکرتا تھا‘اس زمانے میںمقامی لوگ بذریعہ سمندری راستہ کشتیوں اور موٹر بوٹس میں عمان آیاجایا کرتے تھے، آج بھی پاکستان کے بے شمار بلوچ باشندے عمان اور پاکستان میں آباد ہیں۔

عمان میں اردو اور بلوچی زبان وسیع پیمانے پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔آج سے صرف پانچ دہائیاں قبل تک عمان کا شمار خطے کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں جب نوجوان شہزادہ قابوس اعلیٰ برطانوی اور یورپی اداروں سے تعلیم مکمل کرکے واپس پہنچے تو انہیں ملکی حالات نے بہت بے چین کیا، حالات کا تقاضا تھا کہ سلطان قابوس یا تو حالات سے دلبرداشتہ ہوکر گمنامی کے اندھیرے میں کھوجاتے یا دلیرانہ قدم اٹھا کر تاریخ میں اپنانام رقم کرالیتے۔

اپنے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بہادر قابوس نے اپنے والد کا تختہ الٹ کر حکومت کی باگ دوڑ سنبھال لی۔یہ عمان کی تاریخ کا وہ تاریک دور تھا جب انفراسٹرکچر کی صورتحال زبوں حالی کا شکار تھی، عمانی باشندے غربت کی زندگی گزار رہے تھے، قبائلی دشمنیوں کا دور دورہ تھا،حکومت باغیوں کی سرکوبی میں ناکام ہورہی تھی، امن و امان کی صورتحال نہایت تشویشناک تھی، وغیرہ وغیرہ۔

وژنری سلطان قابوس نے حکومت میں آتے ہی ماضی کی دقیانوسی حکومتی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیا۔ سلطان قابوس کا ماننا تھا کہ اگر عمان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے توہر قسم کے تنازعات سے دور رہنا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملکی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے تمام دوطرفہ سرحدی تنازعات کو نہایت خوش اسلوبی سے نمٹا دیا۔ 

دوسری طرف انہوں نے اندرونی امن واستحکام یقینی بنانے کیلئے حکومت کے مخالفین کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھایا،انتقام کی روش ترک کرکے باغیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے، سرکاری سطح پر قومی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا اور میرٹ پر قابل لوگوں کو تعینات کیاگیا،عمانی فوج کوخطے کی بہترین تربیت یافتہ فوج کا درجہ دلوایا۔

انفراسٹرکچر کے شعبے میں تیل سے حاصل کردہ آمدنی سے سرمایہ کاری کرتے ہوئے بہت جلد عمان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔سلطان قابوس کا سب سے حیران کن کارنامہ ملک کی خارجہ پالیسی کو آزادانہ اور غیرجانبدارانہ بنانا تھا۔

انہوں نے تمام پڑوسی ممالک اور عالمی برادری پر واضح کردیا کہ عمان کسی دوسرے کے جھگڑے میں کسی صورت فریق نہیں بنے گا، یہی وجہ ہے کہ ایران اور عراق کے مابین طویل جنگ کے دوران بھی عمان نے دونوں ممالک سے سفارتی تعلقات رکھے،سلطان قابوس نے ایران اور امریکہ سے قریبی تعلقات رکھنے کی بناء پر ایران امریکہ جوہری معاہدہ ممکن بنایا۔

مڈل ایسٹ میں حالیہ کشیدگی کے دوران بھی عمان نے اپناجھکاؤ کسی ایک فریق کی طرف نہیں کیا، عمان نے سعودی عرب اور قطر کے مابین چپقلش میں بھی اپنے آپ کو مکمل طور پر غیرجانبدار رکھا، دو برس قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے بھی عمان کا دورہ کیا جو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے عمان کی آزاد خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتا تھا۔

سلطان قابوس کو پاکستان کا بھی ایک قابلِ اعتماد دوست سمجھا جاتا تھا، انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے نشانِ پاکستان کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا گیا تھا۔

آج مرحوم سلطان قابوس کے بارے میں میڈیا رپورٹس پڑھتے ہوئے مجھے اپنے پیارے وطن کا خیال آرہا ہے،آزادی سے تاحال کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب پاکستان کو کسی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، ہمارے حکمراںکبھی مہاتیر محمد کی مثالیں دیتےاورکبھی مدینہ ریاست بنانے کے دعویٰ کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق بتلاتے ہیں کہ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک ہم سے آگے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا ہر انسان کامیابی کے حصول کیلئے کسی دوسرے کامیاب انسان کو رول ماڈل بناتا ہے، یہی صورتحال عالمی سطح پر بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہےکہ قومیں اپنی قومی حکمت عملی کا تعین کرنے کیلئے دوسرے کامیاب ممالک کی پالیسیوں کا جائزہ لیتی ہیں۔ 

میری نظر میں آج اگرپاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرناہے تو ہمیں سلطان قابوس کی سمجھداری اور دوراندیشی سے بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔ 

 ہمیں اپنی منفرد جیواسٹریٹیجک پوزیشن کو اپنی کمزوری نہیں بلکہ طاقت سمجھناہوگا، ہمیں اندرونی امن و استحکام یقینی بنانے کیلئے ایک قومی نظریہ کو دل و جاں سے پروان چڑھانا ہوگااور ہمیں سمجھناہوگا کہ ملکی ترقی و خوشحالی کا راز پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات میں پنہاں ہے۔ 

اگر عمان جیسا ماضی کا پسماندہ ترین ملک اپنی آزادانہ پالیسیوں کی بدولت ترقی یافتہ ممالک کی صف میںشامل ہوسکتا ہے توہم کیوں نہیں ؟اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہر محب وطن پاکستانی کو اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں 00923004647998)

تازہ ترین