• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیوریج کا پانی سمندر میں ڈالنے سے آبی حیات کو خطرات کا سامنا

صنعتی فضلہ اور سیوریج واٹر سمندری حیات اور ماحول کے لیے خطرہ



کروڑوں گیلن سیوریج صاف کئے بغیر سمندر میں ڈالنے سے آبی حیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مختلف اقسام کے پودے ناپید ہونے سے چھوٹی مچھلیوں کو غذائی قلت کا سامناہے ، جبکہ چھوٹی مچھلیاں کم ہونے سے بڑی مچھلیوں کے خوراک کے لالے پڑگئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کا منصوبہ جلد مکمل نہ کیا گیا تو کراچی کی سمندری حدود میں پائی جانے والی مچھلیاں کھانے کے قابل نہیں رہیں گی۔

سیوریج کا گندہ پانی ٹریٹمنٹ کے بغیر براہِ راست سمندر میں ڈالنے سے ایک طرف کراچی کی فضا زہر آلود ہورہی ہے تو دوسری طرف آبی حیات کو بھی زندگی کے لالے پڑگئے ہیں۔

عالمی اداروں کے سروے بتاتے ہیں کہ بحیرہ عرب کی آلودگی خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے اور اس میں دیگر شہروں کے علاوہ کراچی کا بھی کردار ہے جہاں ہر روز سیوریج کی کروڑوں گیلن گندگی سمندر میں ڈالی جارہی ہے۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فوری اقدامات نہ کئے گئے تو کراچی کی سمندری حدود میں پائی جانے والی مچھلیاں کھانے کے قابل نہیں رہیں گی۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ کراچی کا سمندر آلودہ ہونے سے کچھووں کی تعداد بھی کافی حد تک کم ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ آبی پودوں کی افزائش پر نہایت منفی اثرات پڑے ہیں اور ان کی بہت سی اقسام ناپید ہوگئی ہیں۔ مختصر یہ کہ ٹریٹمنٹ سسٹم کے بغیر سمندر کا اندرونی نظام تلپٹ ہوتا جارہا ہے ۔

محمد معظم خان، ٹیکنیکل ایڈوائزر، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کا کہنا ہے کہ چھوٹی مچھلیاں پودے کھاتی ہیں اوربڑی مچھلیاں، چھوٹی مچھلیوں کو، لیکن آلودگی نے کراچی کے سمندر میں آٹا بحران جیسی صورتحال پیدا کردی ہے اور سمندر ی حیات بھی خوراک کے بحران کا شکار ہے۔کراچی میں رہنے والی انسانی اور سمندر میں رہنے والی آبی حیات کیلئے بڑا خطرہ ہے۔

ماہرین کے مطابق سمندر ملکی صنعت و تجارت کے علاوہ سیرو سیاحت اور شہروں کی خوبصورتی بڑھانے میں بھی اہم کردار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سمندر اور ساحلی مقامات کو صاف ستھرا اور آلودگی سے بچانے پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے، مگر کراچی کا سمندر اور مختلف ساحلی مقامات ،بتدریج آلودہ اور گندے ہوتے جارہے ہیں۔ جس کا خمیازہ صرف عوام نہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی بھگتنا پڑے گا۔

تازہ ترین