اُستاد کی عظمت کےبیان کے لیے اس سے بڑی بات کیاہوسکتی ہے کہ تمام انبیاؑء بشمول حضرت محمّد اللہ ﷺکومعلّم بنا کر بھیجا گیا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا ،مَیں اُس کا غلام ہوں، وہ چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یاغلام بنائے رکھے‘‘۔ تو ذرا سوچیے کہ وہ انسان، جو ہمیں شعور و آگہی ،تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتا ہے، معاشرے میں اُٹھنے بیٹھنے کے قابل بناتاہے،مہذّب دنیا کے طور طریقے سکھاتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری کام یابیوں پر ہم سے زیادہ خوش ہوتا ہے،اُس استاد کا مقام و مرتبہ کتنا بلند ہوگا۔
ہم تو چار کتابیں پڑھ کر خود کو عالم ، فاضل، سقراط کا جاں نشین سمجھ بیٹھتے ہیں، لیکن سلام ہے ، اُن علم کے چراغوںکو،جو ساری زندگی روشنی، ضیاء لُٹاتے ہیں اور آخرِ شب تک جلتے ہی رہتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہب میں اساتذہ کو’’ روحانی والدین‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ اُستاد کا ادب و احترام ہر طالبِ علم پر لازم ہےکہ وہ اپنے شاگردوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتا ،اُن کی انفرادی ، اجتماعی اور اخلاقی تربیت کر کے انہیں ایک اعلیٰ مقام تک پہنچاتا ہے۔ جو گمان کویقین میں ڈھالتا اور پتھروں سے ہیرے تراشتا ہے۔والدین کے بعد دنیا میں جتنے بھی رشتے ہیں،اُن میں سب سے پاکیزہ اور مقدّس رشتہ اُستاد اور شاگرد ہی کا مانا جاتا ہے۔
ہماری زندگیوں میں اُستاد کی اہمیت ایک سنار کی سی ہے، جو ایک دھات کے ٹکڑے کو سنوارکرقیمتی بناتا ہے۔ایک اچھا اُستاد اپنے شیریں اندازِ گفتگو ، توجّہ،محنت اورمشفقانہ رویّے سے شاگردوں کو اپنا گرویدہ کرلیتا ہے۔وہ علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ تب ہی توقوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تعمیرِ انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے انکار نہیں کیاجا سکتا ۔ ابتدائے آفرینش سے نظامِ تعلیم میں استاد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبۂ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے اسےقدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔وہ اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے ،جیسے ایک باغ بان اپنے پیڑ،پودوں کی نگہداشت میں ۔تدریس وہ پیشہ ہے، جسے صرف دینِ اسلام ہی میںنہیں ،دنیا کے ہر مذہب، معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے استاد کی اصل قدر و منزلت جس طرح اسلام میں اجاگر کی گئی، کسی اور مذہب میں نہیں۔اللہ ربّ العزّت نے قرآن پاک میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلّم بھی بیان کی ہے۔
شاعرِمشرق علّامہ اقبالؒکے یہ الفاظ ’’ اُستاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور اُن کو مُلک کی خدمت کے قابل بنانا اِنہی کے سپردہے، سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوںمیں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری معلّمین کی ہے۔‘‘ اساتذہ کی عظمت و اہمیت کے عکّاس ہیں۔اُستاد کے ادب و احترام اور عظمت کے حوالے سے اکابرین کے بیان کردہ متعددواقعات اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اساتذہ کی عزّت اور ادب و آداب کےبغیر انسان کبھی منزلِ مقصود پر نہیں پہنچ سکتا۔ مشہورِ زمانہ واقعہ ہے کہ خلیفہ ہارون الرّشیدنے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب سیکھنے کے لیے امام اصمعی کی شاگردی میں دیا۔
ایک دن خلیفہ ہارون اتفاقًااُن کے پاس چلے گئےتو دیکھا کہ اصمعی اپنے پائوں دھورہے ہیں اور شہزادہ ان کےپائوں پر پانی ڈال رہا ہے۔ ہارون الرّشید نے یہ دیکھ کربرہمی کا اظہار کیاکہ ’’مَیں نے اِسے آپ کے پاس اس لیے بھیجا تھا تاکہ یہ اَدب سیکھے۔ آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوںنہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے آپ کےپاؤںپرپانی ڈالے اور دوسرے سے آپ کا پائوں دھوئے۔‘‘جب خلیفۂ وقت کی سوچ اتنی عظیم ہو تو قوم کیسے اور کیوں کر نہ ترقی کرے۔فاتح عالم ،سکند ر ایک مرتبہ اپنے اُستاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہے تھے۔ راستے میں ایک بہت بڑا برساتی نالہ تھا،جس میں بارش کی وجہ سے طغیانی تھی ۔ اُستاد اورشاگرد کے درمیان بحث چِھڑگئی کہ نالہ پہلے کون پار کرے گا، استاد کہہ رہے تھے کہ پہلے مَیں جاؤں گا اور شاگرد بضد تھا کہ مجھے پار کرنے دیں۔
بالآخر ارسطو نے شاگرد کی بات مان لی ا ور پہلے سکندر نے نالہ پار کیا۔نالہ عبور کرنے کے بعد ارسطو نے سکندر سے پوچھا ’’ تم نے پہلے نالہ پار کرکے میری بے عزّ تی نہیں کی؟ـ‘‘ سکندر نے جواب دیا ’’ نہیں اُستادِ ِمحترم! مَیں نے اپنا فرض ادا کیا۔ ارسطو رہے گا، تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکتا‘‘۔باپ بچّے کواپنی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہےتو استاد زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے اور گر کر سنبھلنے کے گُر سے آشنا کرتا ہے۔
ایک بارسکندرِ اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس قدر تعظیم کرتے ہیں، توانہوں نےجواب دیا کہ’’ والدین مجھےآسمان سے زمین پر لائے ، جب کہ استادنے زمین سے آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچایا۔‘‘بطلیموس استاد کی شان کچھ یوں بیان کرتاہےکہ ’’استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے۔‘‘اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ جب علّامہ اقبال کو’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا جانے لگا ،تو آپ نے کہا کہ پہلے میرے اُستاد ،سیّد میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دیا جائے، تب ہی مَیں یہ خطاب قبول کروں گا۔‘‘ مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو حال نظامِ تعلیم کا ہے، وہی حال اساتذہ کا بھی ہے۔
یعنی آج کے دَور میں طلبہ کی اکثریت استاد کو تنخواہ دار ملازم سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے اسکولز،کالجز،یونیورسٹیز کُھلنے کے باوجود اخلاقیات اور تہذیب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔یاد رکھیں! ہم تب ہی ترقّی کر سکتے ہیں، جب اساتذہ کو قدر وقیمت کی نگاہ سے دیکھا جائے، ورنہ یوں ہی جگہ جگہ رُلتے رہیں گے۔ ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ وہی طالب علم اپنی منزلِ مقصود پر پہنچے ہیں،جنہوں نےاستاد کی عزت کی۔مولانا الطاف حُسین حالی نے اساتذہ کی عظمت کے اعتراف میں کیا خُوب کہا ہے کہ؎ ’’ ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت… ہے روک ٹوک اُن کی، حق میں تمہارے نعمت۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے قلم کار برائے صفحہ متفرق
٭منہدی لگانا سنّتِ رسولﷺ بھی ہے، ڈاکٹر ، حکیم میاں نصیر احمد طارق، لاہور٭خان سے جناح تک، پاکستان کا جمہوری ارتقائی سفر، م - ح چوہدری، اسلام آباد٭پنجاب کا مشہور تاریخی شہر میانوالی،قدیم راول پنڈی،حکیم افتخار احمد، لاہور٭حضرت خواجہ سید ذوالفقار احمد چشتی اجمیری، صاحب زادہ سید محمّد ذوالوقار چشتی، جدّہ، سعودی عرب٭صوفی شاعر حمید عظیم آبادی، سید محمّد محسن، کراچی ٭موضوع نہیں لکھا، راس مملوک، لاہور٭حقوقِ نسواں، 6 ستمبر، ہماری فتح و نصرت کا تاریخ ساز دن، میرا سفرِ پاکستان و سفرِ ہجرت 1947ء، یومِ آزادیٔ پاکستان، ڈاکٹر عبد العزیز چشتی، جھنگ٭ امریکا کا دورہ ،مسئلہ کشمیر ، توقعات اور خدشات، نعیم صدیقی، مقام نہیں لکھا٭کشمیر کی فر عو نیت کا موسیٰ،آصف اشرف راولا کوٹ ٭ جہیز کی لعنت، عورتوں پر تشدّد اور طلاق، فائزہ شاہ کاظمی، مقام نہیں لکھا ٭اچھے اور برے لوگ، دنیا کو بدل دینے والی لائبریریاں، یکم نومبر، یوم آزادی گلگت بلتستان اور تعلیمی مسائل، سید جعفر شاہ کاظمی، مقام نہیں لکھا٭اشتہارات اور بے راہ روی، یہ سیلاب کون روکے گا؟،اعتکاف، چند اصلاح طلب پہلو،عزّت کی نیلامی،محمّد ریاض علیمی، نیو کراچی، کراچی ٭باغ جناح میں بہار کی دوپہر،عدنان حسن٭کپتان کی جیت، پاکستان کی جیت، غلام رضا ٭عالمی رویتِ ہلال کمیٹی کی ضرورت، م- ص ایمن، کراچی٭گھر کو لگی ہے آگ گھر کے چراغ سے، بلوچستان کی ساحلی پٹّی پر شکار ، شعیب مختار، کراچی ٭ مجاہدِ ملّت عبد الستّار خان نیازی، جگن ناتھ آزاد اور نعتیہ شاعری، فاروق عادل، میاں والی٭ہم زمانے میں خدا جانے کہاں موجود ہیں،حسیب اعجاز عاشر، مقام نہیں لکھا ٭دنیا میں مردان جفا کش ، عبد البصیر کاسی، مقام نہیں لکھا ٭موضوع ، مقام نہیں لکھا، قاضی جمشید عالم صدیقی٭تعلیم سب کے لیے،مہر عمر دراز جھاوری۔