• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنیے مظہر برلاس کا کالم انہی کی زبانی



(گزشتہ سے پیوستہ)

پنجاب کے مسائل کو بعض دانشوروں نے صرف پنجابی زبان سمجھ رکھا ہے۔ زبان ایک مسئلہ تو ہو سکتا ہے مگر مسائل کی پوری داستان نہیں۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ پنجابی زبان کے مختلف لہجے ہیں تو بھی ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملتان کی تاریخ لاہور سے کہیں پرانی ہے، جب تاریخ پرانی ہے تو زبان بھی پرانی ہو گی۔

اس کے باوجود میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا حالانکہ میں یہ جانتا ہوں کہ سرائیکی واحد زبان ہے جو ملک کے چاروں صوبوں میں بولی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے علاوہ سندھ کے کئی اضلاع میں سرائیکی بولی جاتی ہے۔

اسی طرح خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔ میں خود سرائیکی سمیت پنجاب میں بولی جانے والی تمام زبانیں بولتا ہوں۔

خواتین و حضرات! زبان کے حوالے سے میرا مقدمہ صرف اتنا ہے کہ جب باقی صوبوں میں ابتدائی تعلیم وہاں کی علاقائی زبانوں میں دی جاتی ہے تو پنجاب کو اس سے کیوں محروم رکھا گیا ہے، کیا یہ محرومی ظلم نہیں؟ کیا اس عمل سے پنجاب میں بولی جانے والی زبانیں ختم نہیں ہو جائیں گی۔

اسی ظلم کے باعث تو یہ زبانیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ میں تو پنجاب کیساتھ ہونیوالی ماضی بعید کی تمام زیادتیاں بھول کر صرف چالیس برسوں کی بات کر رہا ہوں۔ چالیس برسوں میں پنجاب کے کئی علاقوں کو نظر انداز کیا گیا۔ پنجاب کے وسائل کا بڑا حصہ صرف لاہور پر خرچ ہوتا رہا۔

اس میں سارا قصور لاہوری بادشاہوں کا نہیں بلکہ ان نمائندوں کا بھی ہے جو ان لاہوری بادشاہوں کو منتخب کرتے رہے، جو ظلم کے سامنے چپ رہے۔ بےبسی کا یہ عالم تھا کہ پنجاب کے بڑے بڑے زمیندار شہری بابوئوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اور یہ ظلم ہوتا رہا۔

پنجاب میں پورے چالیس سال وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی۔ اس ظالمانہ تقسیم کے باعث شمالی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے علاقے محروم سے محروم تر ہوتے گئے۔ ان علاقوں میں ترقیاتی کام نہ ہو سکے۔ تعمیر و ترقی کے منصوبے ان علاقوں میں نہ آ سکے۔

پنجاب پر حکومت کرنے والے طاقتور افراد کی قوت کا اندازہ دو تین مثالوں سے لگایئے۔ مثلاً اگر آپ کہوٹہ سے راولا کوٹ جائیں تو آزاد پتن تک سڑک انتہائی خراب حالت میں ملے گی مگر جونہی آپ کشمیر میں داخل ہوں تو شاندار سڑک استقبال کرتی ہے۔ کہوٹہ سے آزاد پتن تک جس حلقے میں یہ سڑک خراب ہے، یہ علاقہ شاہد خاقان عباسی کا ہے، وہ وزیراعظم رہنے کے باوجود اپنے حلقے کی سڑکیں ٹھیک نہ کروا سکے۔

فاروق لغاری صدرِ پاکستان رہے مگر ان کے علاقے میں بھی ترقیاتی کام نہ ہو سکے۔ ذوالفقار کھوسہ، لطیفہ کھوسہ، رفیق رجوانہ، احمد محمود اور سجاد حسین قریشی گورنر رہے مگر جنوبی پنجاب ترقی سے محروم رہا۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم رہے وائیں اور دوست محمد کھوسہ وزیراعلیٰ رہے مگر کنٹرول لاہوریوں کا رہا۔

یوں جنوبی پنجاب محروم ہی رہا۔ ان مثالوں سے آپ اندازہ لگایئے کہ پنجاب پر لاہوری بادشاہوں کا کتنا کنٹرول تھا کہ وہ وسائل کو جنوبی اور شمالی پنجاب کی طرف جانے ہی نہیں دیتے تھے۔

اگر وسائل برابری کی بنیاد پر تقسیم ہوتے تو پورا پنجاب ترقی کرتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ اگر وسائل کی تقسیم برابری کی بنیاد پر مشکل تھی تو پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر تین حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا، اس سے محرومیوں کا احساس ختم ہو جاتا۔ گزشتہ ہفتے پنجاب کے کچھ علاقوں کی فصلوں کا ذکر کیا تھا، آج کچھ مزید علاقوں کا تذکرہ ہو جائے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اٹک، چکوال، گوجر خان اور جہلم کے علاقوں میں مونگ پھلی کی کاشت کو بڑھایا جاتا، یہاں زیتون کے باغات لگائے جاتے، اسی طرح مری، کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ کے علاقوں میں سیب، اخروٹ اور آلو بخارہ کے باغات میں اضافہ ہوتا، ان پھلوں کی پیداوار بڑھائی جاتی۔

سرگودھا، منڈی بہائو الدین، چنیوٹ، جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہونے والے کنوں اور مالٹے کو دنیا بھر میں متعارف کروایا جاتا۔ ہم اپنا شاندار اورنج متعارف کروانے میں ناکام رہے۔ ہم دالیں درآمد کرتے ہیں اگر ہم خوشاب، جھنگ، میانوالی، بھکر، لیہ اور کوٹ ادو کے علاقوں پر توجہ دیتے تو ہمیں دالیں درآمد نہ کرنا پڑتیں۔ اب بھی شاندار چنا وہاں اگتا ہے۔

ہمیں ساہیوال، وہاڑی، خانیوال اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے اضلاع میں کپاس پر توجہ دینا چاہئے تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ہم ملتان، مظفر گڑھ، خانیوال اور لودھراں میں آم کے باغات کو بہتر بنا سکتے تھے، ہمارا آم دنیا کا بہترین آم ہے، ہم دنیا کو بہترین آم متعارف کروانے میں بھی ناکام رہے۔

ہم نے ضلع ملتان میں سے پانچ اضلاع تو بنا دیئے مگر آم پر توجہ نہ دی۔ رحیم یار خان اور بہاولپور میں کھجوروں کی پیداوار بڑھائی جا سکتی تھی، اسی طرح قصور، شرقپور، لاہور کے نواحی علاقوں اور شیخوپورہ میں امرود کے باغات لگ سکتے تھے۔

پنجاب میں ڈیری فارمز بنا کر دودھ کی کمی کو دور کیا جا سکتا تھا۔ بھیڑ بکریوں، مرغیوں اور مچھلی کے فارمز بنا کر گوشت کی کمی دور کی جا سکتی تھی بلکہ ہم گوشت برآمد بھی کر سکتے تھے۔ حج کے موقع پر سعودی عرب بھیڑ بکریاں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے منگواتا ہے۔

یہ مال ہم دے سکتے تھے۔ شمالی اور جنوبی پنجاب میں شہد کی پیداوار بڑھائی جا سکتی تھی، کھیوڑہ کے گلابی نمک سے اربوں ڈالر کمائے جا سکتے تھے۔ بھارت اسی نمک سے کما گیا، ہم نہ کما سکے۔ باقی اگلے کالم میں فی الحال نوشی گیلانی کا شعر؎

ہمارے درمیاں عہدِ شبِ مہتاب زندہ ہے

ہوا چپکے سے کہتی ہے ابھی اک خواب زندہ ہے

تازہ ترین