• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بین الاقوامی معاشی تھنک ٹینک کے سروے کے مطابق پاکستان کے 81فیصد عوام موجودہ حکومت کے دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، 79فیصد بےروزگاری میں اضافے، 56فیصد غربت اور 55فیصد ٹیکسوں کی بھرمار کو ملک کے اہم ترین مسائل قرار دیتے ہیں۔ اس پسِ منظر میں گیلپ سروے آف پاکستان کی تحقیق کہتی ہے کہ 60فیصد تاجروں کی رائے میں ملک صحیح سمت میں نہیں جا رہا جبکہ 37فیصد کا خیال ہے کہ سمت درست ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی رائے لی گئی تو ایک بڑی اکثریت کا کہنا تھا کہ افراطِ زر اور ٹیکس موجودہ دور کے بڑے مسائل ہیں اور لوگ اشیائے خوردنی اور ایندھن کی روز افزوں قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک امریکی تھنک ٹینک نے بھی پاکستان کو آزاد معیشت کے تقاضوں کے اعتبار سے دنیا کے 166ممالک میں 131واں نمبر دیا ہے۔ یہ معاشی جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ بہتری کے تمام تر دعوئوں کے باوجود پاکستان کو اپنی معیشت کی بحالی کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ فی الوقت جو مسئلہ غریب اور متوسط طبقے کو سب سے زیادہ پریشان کر رہا ہے وہ مہنگائی اور بےروزگاری ہے۔ مہنگائی سے مزدور کسان اور تنخواہ دار طبقے شدید دبائو میں ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کا یہ عزم جو انہوں نے کراچی کی مختلف تقریبات سے خطاب اور وفود سے ملاقاتوں میں ظاہر کیا لائقِ تحسین ہے۔ انہوں نے مہنگائی کے ذمے دار مافیاز کو چن چن کر پکڑنے اور ان کے خاتمے کے لئے سخت ترین اقدامات کا اعلان کیا اور کہا کہ میں کابینہ کے اجلاس میں کئی وزیروں کو گھبرائے ہوئے دیکھتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ مہنگائی پر رو رہے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ قوم پر مشکل اور آزمائش کا وقت ہے مگر مشکلات سے گھبرانے والے زندگی میں کامیاب نہیں ہوتے۔ مہنگائی سے نہ گھبرائیں۔ یہ سب کچھ پچھلی حکومتوں کی بدانتظامی اور کرپشن کا نتیجہ ہے۔ اصلاحات کے عمل میں وقت لگتا ہے اور رکاوٹیں بھی پیش آتی ہیں مگر اس نظام کی دیرپا درستگی ہمیں کرنی ہے۔ وزیراعظم نے پیسہ بنانے کے لئے مہنگائی کرنے والے مافیا کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا جو عہد کیا وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ان کی سنجیدگی کا آئینہ دار ہے۔ اس حوالے سے دیکھنا چاہئے کہ قیمتوں میں اضافہ مصنوعی ہے یا اصلی؟ اگر اصلی ہے تو اِس کا حل مارکیٹ فورسز ہی کے پاس ہے جس کا بنیادی تعلق حکومت کی معاشی پالیسیوں سے ہے۔ جنہیں درست سمت دی جانی چاہئے اگر مصنوعی ہے تو پھر سخت انتظامی کارروائی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو آٹے چینی سبزیوں اور پھلوں کی سپلائی پر توجہ دینی چاہئے جو سارا سال معقول سطح پر برقرار رہے۔ یہ نہیں کہ جب کوئی بحران پیدا ہو تو سرکاری مشینری متحرک ہو جائے ورنہ سوتی رہی۔ مغربی ممالک میں بھی جہاں عموماً قیمتوں کو کنٹرول نہیں کیا جاتا، ضروری اشیائے خوردنی کی رسد اور نرخ برقرار رکھنے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ پنجاب دنیا بھر میں ’’اناج گھر‘‘ کہلاتا ہے مگر پلاننگ موثر نہ ہونے اور کسانوں کی صحیح رہنمائی کے فقدان کے سبب پاکستان گندم کی قلت سے دوچار ہو گیا۔ دوسری اجناس مثلاً دالیں وغیرہ بھی ہم وافر مقدار میں پیدا کر سکتے ہیں لیکن عدم توجہی کے باعث دالیں آسٹریلیا سے درآمد کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے صحیح کہا کہ ضروری اجناس کی پیداوار اور قیمتوں کے معاملے میں عملی اقدامات کرنا چاہئیں۔ یہ نہیں کہ بحران آیا تو کوئی چیز درآمد کرلی ورنہ برآمد کر دی جیسا کہ حالیہ بحران کے دوران گندم کے معاملے میں ہوا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کو ان کی قوتِ خرید کے مطابق اشیائے خوردنی سمیت تمام ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے وزیراعظم کے وژن پر پوری طرح عمل کیا جائے گا۔

تازہ ترین