• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

چمگادڑ بے شمار وائرسز کے ساتھ کیسے زندہ رہتی ہے ؟

کورونا وائرس کا سبب بننے والی چمگادڑ سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ اس کا قوت مدافعت اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ یہ بے شمار بیماریوں کی وجہ بننے والے وائرس کے ساتھ زندہ رہتی ہے۔

یہ بھی دیکھئے: کورونا وائرس چمگادڑ کا سوپ، چوہے کھانےسے پھیلا


غیر ملکی ایکو ہیلتھ ایلائنس کے صدر ڈاکٹر پیٹر ڈسزاک کے مطابق جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے کورونا وائرس سے متعلق یہ بات باوثوق کہی جا سکتی ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ سے پھیلا ہے۔

ڈاکٹر کے مطابق اگر اس بات کی تصدیق ہو گئی تو اس کا مطلب ہے کہ یہی چمگادڑ ’سارس‘ اور ’مرس‘ جیسے وائرسز کی وجہ ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس منہ اور ناک کے علاوہ جسم کے کس حصے سے داخل ہوسکتا ہے؟

ماہرین نے اس کو ’ایپی ڈیمکس‘ یعنی ایک نسا ن سے دوسرے انسان میں پھیلنے والی بیماری قرار دیا ہے، ایسی بیماریوں کی وجہ اکثر خنزیر بھی بنتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ایک چمگادڑ میں کئی وائرس پائے جاتے ہیں مگر ان سے چمگادڑ پر کوئی اثر نہیں پڑتا تاہم ان کے ذریعے افریقا، ملائشیا، بنگلہ دیش اور آسٹریلیا میں بے شمار بیماریاں پھوٹ چکی ہیں جو سیکڑوں افراد کو متاثرکر چکی ہیں۔

یہ چمگادڑیں ایبولا جیسے وائرسز کا سبب بھی بنتی ہیں مگر انہیں اس وائرس سے بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا، ان میں مزید ریبیز وائرس بھی پایا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان وائرس کو برداشت کرنا اور زندہ رہنا چمگادڑوں کو دوسرے میملز یعنی دودھ پلانے والے جانوروں سے مختلف بناتا ہے، اس کے علاوہ دودھ پلانے والے جانوروں میں واحد چمگادڑ ہی ہے جو اُڑنے کی قدرتی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ یہ بیماریوں اور جراثیم سے بھر ےکیڑوں کو کھا لینے سمیت انہیں ہضم بھی کر لیتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق چمگادڑوں کے دنیا میں موجودگی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ چمگادڑیں کیلا، ایوا کاڈو اور آم جیسے پھلوں کی پولینیشن میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں دودھ پلانے والے جانوروںکی ایک چو تھائی تعداد چمگادڑوں پر مشتمل ہے اور متعدد موذی وائرسز کے ساتھ زندہ رہنا انہیں دوسرے جانوروں خصوصاً انسان سے مختلف کرتا ہے ، ان کی تجارت کرنا، غذا کے طور پر انہیں استعمال کرنا، جہاں یہ رہتی ہوں اس جگہ جانا یا ان پر حملہ کرنا سنگین نتائج سامنے لا سکتا ہے۔

چمگادڑوں میں قوت مدافعت کا ارتقاء

چین اور سنگاپور کی جانب سے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چمگادڑیں کیسے ڈی این اے سینسینگ کو استعمال کرتی ہیں۔

چمگادڑوں میں اڑنے کی بے تحاشا توانائی موجود ہوتی ہے، ان کے ڈی این اے میں کسی بھی بیماری سے لڑنے کے لیے زیادہ اینٹی باڈیز پائی جاتی ہیں جو ان کے جسم میں سب سے زیادہ خطرہ پیدا کرنے والی علامت سوجن کو ہونے سے روکتی ہیں، محققین کے مطابق اسی خصوصیت کی وجہ سے چمگادڑیں موذی وائرسز ہونے کے با وجود زندہ بچ جاتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی ممالک میں چمگادڑیں مارکیٹو ں میں باقاعدہ فروخت ہوتی ہیں، ان کو غذا کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے جبکہ چمگادڑوں سے پھیلنے والے زیادہ تر وائرس میں پہلے جانور سے انسان اور پھر دوسرے مرحلے میں انسان کے چہرے کے اعضاء یعنی ناک، منہ، آنکھ سے دوسرے انسان میں بیماری منتقل ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس: سندھ کے سرکاری اسپتالوں کو الرٹ کردیا گیا

ڈاکٹر ڈسزاک کے مطابق موزی بیماریوں اور ان وائرس سے بچنے کے لیے ایسے جانوروں کی فروخت پر روک تھام کرنی ہوگی جن سے بیماریاں پھیلتی ہیں، ماہرین نے ان جانوروں کو دہشتگردوں جتنا ’خطرناک‘ قرار د یا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین