• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ اشرف

نیا کے مختلف ممالک میں لگائے جانے والے با غات ایک سے بڑھ کر ایک ہیں جس میں ہر ایک کی کوشش یہ ہے کہ اس کا باغ دنیا کا سب سے اچھے باغ کا اعزاز حاصل کرے، مگر اس سلسلے میں مغلوں اور انگریزوں نے دنیا کے مختلف ممالک سمیت پاکستان میں جو با غات لگائے وہ یقینا اپنا ثانی نہیں رکھتے اس سلسلے میں اگر پاکستان میں مغلوں اور انگریزوں کے لگائے جانے والے با غات کی جانب نگاہ ڈالی جائے تو شالیمار باغ لاہور ،کلر کہار باغ جو کہ آج انتہائی قدیم ہو چکے ہیں ،مگر اس کے با وجود آج بھی مکمل طور پر سر سبز شاداب ہو کر اپنے شاندار ما ضی کا احوال سنا رہے ہیں۔ 

انگریزوں نے صحت مند ماحول فراہم کر نے کے لئے باغات کے قیام پر خصوصی توجہ دی

اب اگر کراچی کو لیا جائے تو شہر کراچی دنیا کا وہ شہر ہے، جس کی قدامت سے کسی کو انکار نہیں اس شہر کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ اسے ماضی سے لے کر اب تک 30 سے زائد نام دیے جا چکے ہیں کبھی اس شہر کو کرو کالا تو کبھی سکندری جنت کے ناموں سے پکارا جاتارہا،جبکہ ماضی میں اس شہر کو قلاچی ،ڈربو، خور علی ،کلاچی ،کروکل ،کرو کالی ،کراچے ٹاؤن ،کراچر و دیگر ناموں سے جانا اورپہنچانا جاتا تھا ابتداء میں شہر کراچی غلاظت اور گندگی کا ڈھیر تھا ۔اس سلسلے میں ایک بر طانوی فوجی افسر اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ،’’ کراچی ایک ایسا شہر ہے ،جہاں داخل ہوتے ہی انسان کے ناک ،کان اور آنکھیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں بازاروں میں گالم گلوچ ،چیخ و پکار اور گدھوں کی چلانے کی کان پھاڑ دینے والی آواز سنائی دیتی ہے ۔‘‘

پھر جب انگریزوں نے اس شہر پر قبضہ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے فصیل شہر کی دیواریں مسمار کر وائیں اور اس شہر کو ترقی کی سمت میں گامزن کرنے کے لئے سڑکیں ،سیوریج ،ریلوے ،پوسٹ آفس ،بندر گاہ کا نظام دیا اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس شہر میں لوگوں کی تعداد 10 ہزار کے لگ بھگ تھی کو صحت مند ماحول فراہم کر نے کے لئے باغوں اور پارکوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے لیاری کے کنارے باغ لگوائے اور تالپور دور میں لگائے گئے کچھ باغات پر بھی خصوصی توجہ دی ،جس سے کراچی جوکہ میٹھادر اور کھارادر کے علاقوں سے کچھ دور تک واقع تھا سر سبز و شاداب ہو گیا مگر پھر بھی یہاں کے مقامی لوگوں کو تفریحی سہولیات مہیا نہ ہو سکی۔ 

کیونکہ یہ باغات انگریزوں نے صرف اپنے اور اپنے خاندانوں کے لئے مخصوص کر دئے ،جہاں مقامی لوگوں کا داخلہ ممنوع ہو اکر تا تھا ۔پھر انگریزوں نے 1799میں اس ایسٹ انڈیا کمپنی جوکہ آج کے چڑیا گھر کی جگہ موجود تھی اور مملکت سندھ کیخلاف خفیہ سر گرمیوں میں ملوث تھی اسے مسمار کر کے اس کی جگہ 1840میں ایک کھیت لگانے کا کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کھیت ایک وسیع و عریض کھیتوں میں تبدیل ہو گیا ابتدائی طور پر ان کھیتوں میں سبزیاں اگائی جاتی تھیں، جسے بر طانوی افواج کو کھلایا جاتا تھا پھر ان کھیتوں میں سبزیوں کی پیدا وار اتنی زیادہ ہو گئی کہ 1845-1847تک یہاں کی سبزیوں کی سپلائی سے 18ہزار روپے کا منافع ہوا پھر 1860میں کراچی میونسپلٹی کو یہاں ایک مکمل عوامی باغ لگانے کا کام سونپ دیا گیا، جہاں دنیا بھر کے پھولوں اور پھلوں کے درخت اور پودے لگوائے گئے۔ 

ابتداء میں اس باغ کے انتظام کو سنبھالنے کے لئے ایک کلرک ،ایک چپراسی اور 3 مالی ہوا کرتے تھے جوکہ پوری محنت اور دیانتداری کے ساتھ باغ کو مزید خوبصورت بنانے کا کام کرتے تھے۔ جب یہ باغ مکمل ہوا تو اسے وکٹوریہ گارڈن کا نام دیا گیا اور پھر جب انگریزوں نے یہاں مختلف قسم کے جانور اور پرندے چھوڑنا شروع کئے تو اس باغ نے چڑیا گھر کا روپ دھار لیا تو اسے پہلے زولوجیکل گارڈن کا نام دیا گیا اور قیام پاکستان سے قبل جب مہاتما گاندھی نے اس کا افتتاح کیاتو اسے گاندھی گارڈن کا نام سے پکارا جانے لگا اور اب اسے چڑیا گھر کہا جاتا ہے۔

جہاں دنیا بھر کے قدیم درخت جن میں املی ،پیپل کے درخت آج بھی اس کے قدامت کی کہانی بیان کرتے نظر آتے ہیں وکٹوریہ گارڈن کے نام سے کراچی کا پہلا باغ، جہاں تک لوگوں کو سفری سہولیات مہیا کرنے کے لئے ٹرامیں بھی چلا کر تیں تھیں بڑی تعداد میں انگریز اور مقامی لوگ رو زانہ آیا کرتے تھے، مگر مقامی افراد جن پر باغ میں داخلے کی پابندی تھی باہر سے ہی باغ دیکھ کر چلے جایا کرتے تھے، مگر انگریزوں جن میں خصوصی طور پر بر طانوی افواج کے افسران اور اہلکاروں کے خاندا ن نا صرف اندر جایا کرتے تھے بلکہ اسے پکنک پوائنٹ خیال کرکے کئی کئی روز یہاں قیام کر تے تھے۔ 

یہ کراچی کا پہلا باقاعدہ باغ تھا ۔پھر انگریزوں نے آج کے فرئیر ہال کی جگہ، جہاں آج صادقین گیلری کے علاوہ ایک قدیم ترین لائبریری بھی موجود ہے اسی جگہ 1887میں ایک دوسراخوبصورت باغ بنوایا ،جہاں مختلف ممالک سے پھولوں اور پھلوں کے پودے لا کر لگوائے اور یہاں ایک فوارے کے ساتھ ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ نسب کر وایا اس باغ کا انتظام بھی کراچی میونسپلٹی سنبھالتی تھی اور اسی نے اسے ایک خوبصورت باغ کی صورت میں ڈھالا تھا جہاں تفریح کے لئے دوردور سے لوگ آیا کرتے تھے آج بھی اس باغ میں لوگوں کو تمام تر تفریحی سہولیات اور خوبصورت ماحول میسر ہے۔ 

جہاں آج بھی روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ پکنک منانے کی غرض سے آتے ہیں ۔انگریز جنہوں نے شہر کراچی کی ترقی میں نمایاں کام کیا، انہوں نے برنس روڈ کے علاقے جہاں آج قومی عجائب گھر قائم ہے میں ابتدائی طور پر کمشنر کراچی لیوڈجس نے سکھر بیراج بنانے میں بھی نمایاں کر دار ادا کیا ابتداء میں 25ایکڑ کے رقبے پر ایک پارک قائم کیا اور اس پارک کا انتظام کراچی جیل کے سپرد کر دیا جیل کے قیدیوں نے یہاں آم ،چیکو ،انگور، امرود،ناریل،کھجور و دیگر پھلوں کے درخت اور بیلیں لگا کر اسے ایک مکمل باغ کی شکل دی اور ایک وقت وہ بھی ہوا کرتا تھا۔ 

جب یہاں اتنے انگور ،امرود ،چیکو ،آم،ناریل،کھجور دوسرے پھل پیدا ہوتے تھے کے انہیں بیرون ملک بر آمد کیا جاتا تھا پھر اس باغ کو ایک ماہر نباتات مسٹر برنس جوکہ اعلی افسربھی تھا کے حوالے کر دیا گیا، جنہوں نے اسے ایک نباتاتی باغ میں تبدیل کر د،یا جہاں نویں جماعت سے بارہویں جماعت میں بوٹنی پڑھنے والے طلبہ و طالبات بوٹنی سے متعلق تجربات کے لئے یہاں آیا کرتے تھے اور غالبا یہ پورے پاکستان میں واحد نباتات گارڈن تھا۔ 

جسے دیکھتے ہوئے بھارت کے شہر کلکتہ میں اس کی نقل کے طور پر ایک نباتاتی گارڈن قائم کیا گیا جو آج تک قائم ہے جبکہ ہمارا یہ گارڈن اب اجڑ چکا ہے اور یہاں محض چند قدیم درخت ماضی کو یاد دلاتے ہیں ۔اسی برنس گارڈن میں وکٹوریہ میوزیم بلڈنگ جسے 1892میں مکمل کیا گیا آج بھی موجود ہے مگر آج اس عمارت جسے بعد میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے لئے وقف کیا گیا اور جس کا افتتاح بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا آج بھی موجود ہے، مگر اب یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت بن چکی ہے، جبکہ اسی باغ کے اندر قومی عجائب گھر کی عالیشان عمارت جس کا صدر پاکستان جنرل یحی خان نے 1969میں افتتاح کیا تھا۔ 

آج بھی پوری آن بان شان کے ساتھ کھڑی ہے ،جبکہ اس باغ جس کے ماضی میں 3 حصے تھے جس میں ایک حصہ مرد ،عورت دوسرا حصہ بچوں اور تیسرا حصہ صرف خواتین کے لئے مخصوص تھا جس میں سے دو حصے تو ختم ہو چکے ہیں مگر عورتوں کا پر دہ پارک اب بھی موجود ہے جہاں خواتین آج بھی فرصت کے لمحات گزارنے کے لئے آتی ہیں اور کیونکہ اس باغ کے ساتھ سندھ مسلم لاء کالج ،ڈی جے کالج ،ایس ایم آرٹس کالج موجود ہے لہذا پڑھنے والے طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد آج بھی ٹولیوں کی شکل میں جوق درجوق نہ صرف آتی ہے بلکہ اپنا مطالعاتی ذوق بھی پورا کرتی ہے ۔

تازہ ترین