• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آن لائن لرننگ میں اس قدر وسعت ہے کہ تعلیم کی تقریباً تمام تر ضروریات پوری ہوسکتی ہیں ماسوائے ان کورسز کے جن میں پریکٹیکل شامل ہوتے ہیں۔ یہ طریقۂ تعلیم سماجی مساوات اور حرکت پذیری (mobilty)کے رخنے کو بھی پُر کرتاہے۔ 

درس و تدریس کے شعبے میں 15سال کا تجربہ رکھنے والے ایک استاد کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً روز ہی اپنے طلبا سے یہ سنتے ہیں کہ وہ آن لائن فراہم کی جانے والی اعلیٰ تعلیم کے مواقع اور رسائی کی وجہ سے اس جانب مائل ہورہے ہیں۔ جو بھی یہ کہانی سناتاہے اس کے پاس واضح دلائل ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا اپنا ایک نقطۂ نظر بھی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ’’ ایک ڈگری اس وقت تک میری دسترس سے باہر تھی، جب تک مجھے اس کا آن لائن پروگرام نہیں مل گیا ‘‘۔

تعلیم سب کیلئے

یہ نعرہ تو عشروں سے لگ رہاہے لیکن لگتاہے کہ آن لائن ایجوکیشن کی سہولت نے اسے کسی حدتک پورا کردیا ہے۔ آن لائن ایجوکیشن تک رسائی اور ملنے والے مواقع جمہوری طرز کی غمازی کرتے ہیں یعنی اس طریقۂ کار کے تحت بہتر رسائی، اعلیٰ معیار اور کم لاگت کے ساتھ تعلیم کی دستیابی سے لوگ اپنی زندگیوں کو بہتر کرسکتے ہیں۔ 

کسی بھی ملک کے تعلیمی اداروں میں اگر مخصوص مضامین کی تعلیم نہیں دی جارہی تو وہاں سرکاری سطح پر آن لائن تعلیم کی سہولت سے یہ کمی پوری کی جاسکتی ہے۔ طلبا کو اپنے بہتر مستقل کیلئے آن لائن ایجوکیشن سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے اپنے وقت اور پیسو ں کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔

بدلتے ہوئے ماڈلز

کچھ عرصے قبل لوگ آن لائن ایجوکیشن پر بھروسہ نہیں کرتے تھے لیکن بدلتے وقت نے آن لائن ایجوکیشن تک رسائی، اس کے معیار اور مواقع کے حوالے سے زبردست پیش رفت کی ہے۔ اس طریقۂ کار کے تحت طلبا کے لیے نہ صرف تعلیم کے مزید در کھل جاتے ہیں بلکہ ان کے دنیا بھر کے افراد سے روابط بھی استوار ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

ایم آئی ٹی، اسٹینفورڈ، پرنسٹن اور ہارورڈ سمیت دنیا کی بہت سی معروف جامعات آن لائن کورسز پیش کرتی ہیں، جن میں سے کچھ فری کورسز بھی ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے طلبا ان کورسز سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ آن لائن تعلیم کے بڑھتے ہوئے رحجان کو دیکھتے ہوئے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے صدر تجان ہینیسی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ وہ ایک سونامی آتاہوادیکھ رہے ہیں۔

اخراجات کا فرق

آن لائن ایجوکیشن تعلیم حاصل کرتے ہوئے آپ پر اخراجات کا بوجھ کم ہو سکتاہے، تاہم ایسا تمام پروگرامزکیلئے نہیں ہے۔ عام طور پر آن لائن اداروں کو کلاس روم کا سیٹ اَپ نہیں لگانا پڑتا اور نہ ہی کلاس روم کی سہولتوںکے اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔ اسی طرح آن لائن تعلیم حاصل کرنے والوں کو تعلیمی اداروں میں آنے جانے اور کھانے پینے کے اخراجات بھی برداشت نہیں کرنے پڑتے۔

کورس کی تکمیل ؟

آن لائن کورسز کے ضمن میں ایک اہم اور قابل توجہ معاملہ یہ ہے کہ ان کورسز کو شروع کرنے والے90فیصد طالب علم انھیں ختم نہیں کرپاتے اور ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ Penn نامی ادارے کے جائزے کے مطابق کورسز مکمل نہ کرنے کی یہ شرح 96فیصد ہے۔ اس حوالے سے ایک تاثر یہ بھی ہے کہ آن لائن کورسزکرنے والے طالب علموں کی اکثریت سنجیدہ نہیں ہوتی، بعض طلبا تفریح کے لئے ان کورسز میں داخلہ لے لیتے ہیں اور مفت میں ایک دو لیکچرز میں شرکت کرنے کو معیوب نہیں سمجھتے۔

ایک رپورٹ کے مطا بق ا ٓن لائن کورسز میں داخلہ لینے والےطالب علموں میں سے نصف فیصد آن لائن کی پہلی کلاس سے ہی کورس چھوڑ جاتے ہیں۔ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ڈیوڈ پرٹچارڈ کے کورس ایم او او سی کے لئے 17ہزار طالب علموں نے خود کو انرول کروایا، جس میں سے صرف دس فیصد طالب علموں نے دوسری اسائنمنٹ مکمل کی، مگر ان میں سے بھی صرف نصف تعداد نے سرٹیفکیٹ کے خاتمے تک آن لائن کلاسز میں شرکت جاری رکھی۔

کیریئر کے مواقع

اس میں دو رائے نہیں کہ آن لائن ایجوکیشن سسٹم میں آپ کو مضامین یا کورسز کی وسیع رینج دستیاب ہوسکتی ہے۔ کسی خاص مضمون کی اگر بہت طلب ہے لیکن وہ مضمون آپ کو روایتی طریقۂ تعلیم میں پڑھنے کا موقع نہیں ملتا یا وہ ادارہ آپ کے شہر میں موجود نہیں تو آپ آن لائن ایجوکیشن کے ذریعے اس مضمون میں مہارت حاصل کرکے اپنے کیریئر کو دوام بخش سکتے ہیں۔ 

یہ بات درست ہے کہ کسی زمانے میں آن لائن سرٹیفکیٹ کی کوئی وقعت نہیں تھی اور آن لائن سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والوں کو کمپنیاں  ملازمت پر رکھنے سے ہچکچاتی تھیں، لیکن آج بہت سی کمپنیاں ان افراد کو ملازمت پر رکھ رہی ہیں جن کے پاس تصدیق شدہ آن لائن ڈگریاں  اور سرٹیفکیٹس موجود ہیں۔

تازہ ترین