بلوچستان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کے بلند و بالا پہاڑ جس میں قدرت نے بیش بہا خزانے دفن کر رکھے ہیں جن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ ایک بوڑھے بلوچستانی نے انہیں اپنے قلعے اور فصیلیں قرار دیا تھا اور بڑے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ان کے درمیان رہ کر وہ اپنے آپ کو بہت مضبوط اور محفوظ تصور کرتے ہیں۔ اس کا 700کلومیٹر طویل ساحل جسے دیکھ کر انسان پر رومانویت طاری ہو جاتی ہے۔ وہیں اس کے صدیوں سے پیاسے لق و دق صحرا جہاں زندگی فطرت کی تمام تر سختیوں سے نبرد آزما نظر آتی ہے۔ اگر بلوچستان میں زمین کے اندر خزانوں کی بات کی جائے تو یہاں بھی قدرت نے بہت فیاضی دکھائی ہے یہاں کی معدنیات ہوں یا پھر ضلع ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس دونوں نے کئی دہائیوں سے اس مملکتِ خداداد کے خزانے بھرے ہیں۔ اس گیس کی بدولت ملک بھر کے کارخانے چلتے رہے۔ اسلام آباد کے باسی اسی گیس کی وجہ سے بنا کسی تکلیف کے اپنے چولہے جلا کر آج بھی گرم کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دسمبر تا مارچ کوئٹہ بہت سرد ہو جاتا ہے۔ خشک تو یہ ازل سے ہے ان مہینوں میں یہ ہمارے حکمرانوں کی طرح بےمروت بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ برسوں سے یہاں لکڑی اور کوئلہ جلانے کی روایات بدل گئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں سوئی گیس 1980میں آئی۔ اس کے بعد دھوئیں سے بیزار لوگوں نے اپنی زندگی میں کچھ آسانی محسوس کی اور اپنے صوبے میں پیدا ہونے والے کوئلے کا استعمال آہستہ آہستہ ترک کرتے ہوئے اپنے صوبے کی قدرتی گیس کو بطور ایندھن استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والے قدرت کے اس عظیم تحفے کو اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے سرد مہر لوگ یا پھر سوئی سدرن گیس کمپنی کے عہدیدار کراچی کے مرکزی دفتر میں بیٹھ کر تقسیم کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان چار دہائیوں میں گیس کی پائپ لائن سوئی سے بذریعہ شکارپور سندھ سے کوئٹہ اور پھر گزشتہ کچھ برسوں سے کوئٹہ کے بعد دیگر سرد علاقوں مستونگ، قلات، پشین اور زیارت تک ہی مکمل ہو سکی ہے۔ اور یوں بلوچستان کے 34اضلاع میں سے صرف گیارہ یا بارہ اضلاع ہی اس نعمت خداوندی سے مستفید ہوئے ہیں۔ ان میں سے بھی 4،5 اضلاع میں گیس کی موجودگی صرف پائپ لائنوں کے بچھانے تک محدود ہے۔ منفی 10ڈگری میں اگر آپ کوئٹہ، زیارت، پشین، مستونگ یا قلات کے رہائشی ہیں تو آپ کو مجبوراً اپنے پرکھوں کے ماضی میں جانا ہوگا اور لکڑی یا کوئلے کا بندوبست کرنا ہوگا کیونکہ ان علاقوں میں گیس کی جگہ خالی ہوا آپ کا منہ چڑا رہی ہوگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسائل اتنے بڑھے کہ پہلے سردیوں کے شروع ہوتے ہی کوئٹہ کے باسی بطور احتجاج روڈز کو گیس نہ ہونے یا پریشر کی کمی کی وجہ سے بند کرنا شروع کردیتے تھے اب دیگر سرد اضلاع میں بھی عوام اپنے صوبے سے نکلنے والی گیس کی عدم دستیابی یا پریشر بڑھانے کے لیے دیگر معاملات زندگی چھوڑکر سراپا احتجاج ہوتے ہیں اور یوں سردیاں احتجاج میں گزر جاتی ہیں اس کے بعد اس مسئلے کا کیا کرنا ہے باقی ماندہ آٹھ مہینے پھر اسلام آباد اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے عہدیدار خواب خرگوش کے مزے لینے لگتے ہیں، کسی کو خیال نہیں آتا ہے کہ لاہور کی آبادی کے برابر آبادی والے صوبے سے نکلنے والی گیس کی کم از کم چند اضلاع تک ہی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ یہ جگ ہنسائی کی وجہ نہ بنے جو کہ 1952سے بظاہر تو بنتی ہوئی آ رہی ہے۔ اس کو ہم یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ زرعی پنجاب میں آٹا وافر مقدار میں دستیاب ہونے کے باوجود دانستہ طور پر آٹے کا بحران پیدا کر دیا جائے دیگر اضلاع کو تو چھوڑیں لاہور میں بھی آٹا دستیاب نہ ہو جب کہ یہی پنجاب کا آٹا کوسوں میل دور بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں نہ صرف وافر مقدار میں دستیاب ہو بلکہ اس کی قیمت بھی پنجاب سے کم ہو تو ایسے میں کوئی پنجاب کے کسی ضلع کا باسی یہ سوال کر دے کہ ہماری گندم سے بننے والا آٹا ہمیں میسر نہیں جبکہ کوسوں میل دور کوئٹہ میں یہی آٹا وافر مقدار میں دستیاب ہے تو جواب کیا ہوگا؟ مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے سوال اٹھانے والے کو مورد الزام ٹھہرایا جائے تو مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھیں گے۔ بلوچستان کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ ملکی کارخانے چلانے والے اپنے صوبے کے گیس سے کارخانے چلانا تو دور اپنے جسم کی حرارت کا تقاضا بھی پورا نہیں کر پا رہے۔ پورے بلوچستان کیلئے 190ایم ایم سی ایف ڈی گیس درکار ہے جس میں سے صرف 110ایم ایم سی ایف ڈی گیس سوئی ڈیرہ بگٹی سے بلوچستان کو فراہم کی جارہی ہے۔ پشتو میں کہاوت ہے کہ ایک شخص جس نے پیسے لینے تھے اس کو حساب نہیں آتا تھا جبکہ جس شخص نے پیسے دینے تھے اسے خدا کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ یہاں بھی لگتا ہے حکومت بلوچستان کو حساب نہیں آتا اور وفاقی حکومت کو اللہ سے ڈر نہیں۔ بلوچستان میں سوئی سدرن گیس کمپنی کے ٹوٹل ڈھائی لاکھ گیس صارفین ہیں جن میں ایک لاکھ 80ہزار کوئٹہ میں ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں سندھ میں یہی سوئی سدرن گیس کمپنی 30لاکھ صارفین کو گیس جوا نمردی سے فراہم کررہی ہے جہاں گیس کی کوئی کمی نہیں یہ کمی صرف بلوچستان میں ہورہی ہے۔ ایس ایس جی سی 58روپے فی یونٹ گیس اپنے صارفین کو فراہم کر رہی ہے جس میں ٹیکسز شامل نہیں ہیں اس حساب سے اگر بلوچستان میں سردی کے موسم میں دیکھا جائے تو کم از کم فی صارف جس کے گھر دو ہیٹر ہوں تو اسکا ماہانہ بل چالیس ہزار روپے ہوگا یعنی 5ماہ میں وہ 2لاکھ روپے ادا کرےگا جبکہ مزدور کی اجرت ماہانہ کم از کم 18ہزار سرکاری طور پر مقرر ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر 22کروڑ پاکستانی عوام 2منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہوئے بلوچستان کے بارے میں سوچیں کہ آخر یہاں کے مسائل کا ذمہ دار اور رکاوٹ کیا ہے، تو شاید حل نکل آئے۔