• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُردو کے نامور ادیب، مزاح نگار محمد خالد اختر کی 18ویں برسی

اردو کے نامور ادیب اور مزاح نگار مرحوم محمد خالد اختر کو بچھڑے 18برس بیت گئے۔

محمد خالد اختر 23 جنوری 1920ء کو بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی اختر علی بہاولپور سے ممبر لیجسلیٹو اسمبلی رہ چکے تھے۔ خالد اختر نے ابتدائی تعلیم صادق پبلک اسکول بہاولپور سے حاصل کی جہاں شفیق الرحمان بھی ان کے ہم مکتب تھے۔

کراچی کے پس ماندہ علاقے لیاری کی ایک پس ماندہ بستی چاکیواڑہ قیام پاکستان کے فوری بعد کے برسوں میں یہ بستی اردو کے ایک نوجوان ادیب کا مسکن تھی جس نے ایک ایسا ناول لکھا جس سے غریب بلوچوں کی اس بستی کا نام تاریخ میں امر ہوگیا۔

یہ نوجوان آگے چل کر اُردو کا صاحبِ طرز مزاح نگار، مترجم اور سفرنامہ نگار قرار پایا جسے اُردو ادب کی تاریخ محمد خالد اختر کے نام سے جانتی ہے۔ محمد خالد اختر کی تحریروں میں وہی فراخ دلی اور درویشی نظر آتی ہے جو خود ان کی طبیعت میں تھی۔

گھر میں اُن کا اپنا کمرہ اُن کی ذاتی سادگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ادیب تو وہ تھے ہی لیکن مطالعے کا جیسا عشق اُن کو تھا وہ بڑے بڑے ادیبوں میں بھی نہیں ملتا۔ محمد خالد اختر کوئی روایتی ادیب نہیں تھے۔ انہوں نے لکھنے کے لیے کئی اصناف منتخب کیں۔ مزاح ہو یا سفرنامہ، پیروڈی ہو یا ترجمہ، انہوں نے ہر صنف میں منفرد کام کیا۔

محمد خالد اختر 2 فروری 2002ء کو دُنیا سے رخصت ہوگئے وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں اور وقت ایک دن چاکیواڑہ کو بھی تبدیل کر دے گا لیکن محمد خالد اختر کی تحریریں اُنہیں اور اُن کے چاکیواڑہ کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔

تازہ ترین