بلوچستان میں گزشتہ ہفتہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کے بیانات سے سیاسی درجہ حرارت میں بظاہر کسی حد تک کمی نظر آرہی ہے کوئٹہ کے شدید سرد موسم میں سیاسی ماحول میں پیدا ہونے والی گرما گرمی کے بعد صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں خاموشی چھائی ہوئی ہے ، بلوچستان میں گزشتہ ہفتہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کے بیانات سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ دنوں اپنا کردار ادا کیا تھا اور ان کی جانب سے یہ بات سامنے آئی تھے کہ بلوچستان کے دو بڑوں کے درمیان معاملات ٹھیک کردیئے ہیں تاہم اس کے فوری بعد وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی جسے سیاسی حلقوں میں بڑی اہمیت دی گئی ہے ، جبکہ اسی دوران سابق اسپیکر میر جان محمد جمالی نے بھی وزیر اعلیٰ جام کمال خان سے ملاقات کی یہ حکمران بلوچستان عوامی پارٹی کے دو بڑئے رہنما وں کے درمیان کافی عرصے کے بعد ہونے والی ایک اہم ملاقات قراردی جارہی ہے ۔
صوبائی دارلحکومت میں بعض سیاسی حلقوں کا موقف ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کا معاملہ حل ہوگیا ہے جبکہ کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے اس کو عارضی قرار دیا جارہا ہے۔ہفتہ رفتہ کے دوران بلوچستان مین بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لئے سی پیک معاہدے کے تحت گوادر میں کوئلے سے چلنے والی تین سو میگاواٹ بجلی گھر کی تعمیر کیلئے بلوچستان انرجی کمپنی اور سی آئی ایچ سی پاک پاور کمپنی کے درمیان ایم او یو پر دستخط ہوگئے ۔ سی پیک معاہدے کے تحت گوادر میں کوئلے سے چلنے والی تین سو میگا واٹ بجلی گھر کی تعمیر کے سلسلے میں زمین کی حوالگی سے متعلق بلوچستان انرجی کمپنی اور سی آئی ایچ سی پاک پاور کمپنی (چائنیز کمپنی) کے درمیان چیف سیکرٹری بلوچستان کے آفس میں تقریب منعقد ہوئی جس میں ایم او یو پر بلوچستان حکومت کی طرف سے چیف ایگزیکٹو افسر بلوچستان انرجی کمپنی شہریار تاج اور چائنیز کمپنی کی طرف سے کمپنی جنرل مینجر لی یان فینگ نے دستخط کئے ،اس موقع پر چیف سیکرٹری بلوچستان فضیل اصغرنے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک منصوبے کے تحت گوادر میں چائینز کمپنی سی ایچ آئی سی پاور کمپنی کو 207 ایکڑ زمین لیز پر دی گئی ہے مذکورہ کمپنی گوادر میں تین سو میگاواٹ کا پاور پلانٹ قائم کریگی اور منصوبہ کو تین سال کی مدت میں مکمل کیا جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ پلانٹ کی تعمیر سے گوادر میں بلوچستان کے میں بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی ، بجلی گھر کی تعمیر سے گوادر میں دور دراز علاقوں کے لوگوں کو بجلی کی فراہمی مزید بہتر ہوسکے گی اور صنعتی پہیہ مزید بہتر طریقے سے چل پڑے گا اور روزگار کے مواقع میسر ہونگے ۔
انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ کے قریب سو میگاواٹ کا سولر پاور پلانٹ کی تعمیر کے منصوبے پر جون میں کام شروع ہوجائیگا ۔ قبل ازیںچیف سیکرٹری بلوچستان کیپٹن ریٹائر ڈفضیل اصغر نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت بلوچستان میں بجلی کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے اور سی پیک معاہدے کے تحت گوادر میں کوئلے سے چلنے والی 300 میگاواٹ بجلی پلانٹ کی تعمیر کے حوالے سے زمین کی حوالگی کا معاہدہ بلوچستان انرجی کمپنی اور سی آئی ایچ سی پاک پاور کمپنی چائناکے درمیان طے پایا۔
انہوں نے کہا کہ پاور پلانٹ کی تعمیر سے گوادر میں جاری تعمیرات اور مستقبل میں بجلی کی ضروریات پورا کرنے میں کافی حد تک مدد ملے گی ۔اور اس کی تعمیر سے گوادر کے دوردارزعلاقوں میں بھی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گاانہوں نے کہا کہ چائنیزکمپنی کو زمین کی حوالگی کے بعد فوری طور پر کام شروع کیا جائے گا جو تین سال مدت کے اندر یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا اور اس منصوبے سے صوبے کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر ہونگے معاہدے پر حکومت بلوچستان کی طرف سے چیف ایگزیکٹو آفیسر بلوچستان انرجی کمپنی شہریار تاج اور سی آئی ایچ سی پاک پاور چائنا کمپنی کے جنرل مینیجر سپیڈلی نے دستخط کیےچیف سیکرٹری بلوچستان نے مزید کہا کہ صوبے میں بجلی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کچلاک کے علاقے میں سو 100میگاواٹ کا سولر پلانٹ بھی لگایا جائے گا جو مئی یا جون میں کام کرنا شروع ہو جائے گا جس سے نیشنل گرڈ کے ذریعے بجلی فراہم کی جائے گی ۔
پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے اربوں ڈالر کے گوادر کاشغر اقتصادی راہداری کو جہاں وفاقی حکومت سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے انقلابی قرار دیا گیا وہاں اس پر بلوچستان میں مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر عمل درآمد کے حوالے سے روز اول ہی سے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیاجاتا رہا ہے سی پیک منصوبوں کے تحت بلوچستان میں گوادر پورٹ کو مزید فعال بنانے کے لئے صوبے میں سڑکوں کا جال بچھائے جانےسمیت دیگر منصوبوں کے ساتھ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے اقدامات کا اعلان کیا تھا ، بلوچستان میں بجلی کی کھپت ملک کے دوسرئے صوبوں بلکہ ملک کے کئی بڑئے شہروں کے مقابلے میں بھی انتہائی کم ہے ، ماہرین کے مطابق پورئے بلوچستان میں گھریلو ، زرعی اور دیگر تمام مقاصد کے لئے مجموعی طور پر 1600 سے 1700 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے ، مگر اس کو اس کا نصف بھی دستیاب نہیں ہوتا بلکہ بلوچستان کو نیشنل گرڈ سے بمشکل سے 600 سے 650 میگاواٹ بجلی ملتی ہے جس کی وجہ سے زندگی کے معمولات بری طرح سے متاثر ہوکر رہ جاتے ہیں ۔