اسلام آباد (انصار عباسی) آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے پشاور بی آر ٹی پر اپنی تازہ ترین آڈٹ رپورٹ میں نقصانات، اشیاء ضایع کرنے، غیر مجاز انداز سے تبدیلیوں، بے ضابطہ انداز سے ادائیگیوں وغیرہ کے نتیجے میں اربوں روپے کے نقصانات کا حوالہ پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ پروجیکٹ کی منصوبہ بندی میں نقائص تھے اور تعمیراتی کام تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن کے بغیر ہی شروع کر دیا گیا۔
خیبرپختونخوا حکومت کے ایک ذریعے نے دی نیوز کو اس رپورٹ کی نقل فراہم کی ہے، جس میں بتایاگیا ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے وقت پر ان خدشات کا ذکر کر دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات کی وجہ سے اس پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے سیاسی دبائو پروجیکٹ کے ڈیزائن اور اس پر عملدرآمد پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن (ڈی ای ڈی) ابتدائی ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت نے ایسے انتباہ پر دھیان نہ دیا اور ثابت کیا کہ اس کا منصوبہ بندی کا عمل اس قدر کھوکھلا تھا کہ حکام تکمیل کیلئے موزوں اور قابل قبول وقت کا تعین بھی نہ کر سکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعمیرات کے پورے مرحلے میں یہ بات دیکھنے کو ملی ہے کہ (منصوبے کیلئے منتخب کیے گئے) تنگ راستہ ’’رائٹ آف وے‘‘ کیلئے کسی بھی صورت موزوں آپشن نہیں تھا کہ بی آر ٹی کوریڈور تعمیر کیا جا سکے۔
اب یہ بات دیکھی جا سکتی ہے کہ کئی اسٹیشنوں پر اسٹیشن کا داخلہ نامناسب لگتا ہے اور یونیورسٹی روڈ پر دکانوں کے سامنے اور رہائشی گلیوں کے سامنے اور حیات آباد ٹائون شپ میں گھروں کے کونے پر پورا ڈھانچہ نظر آرہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 7.9؍ ارب ڈالرز مالیت کی جو بسیں بی آر ٹی پروجیکٹ کیلئے قبل از وقت خریدی گئیں اب ان کی وارنٹی کا عرصہ بھی ختم ہو جائے گا۔ کرایے سے اب تک کوئی آمدنی بھی نہیں ہوئی اور ان بسوں میں ٹوٹ پھوٹ بھی برداشت کرنا پڑے گی۔
یہ بسیں جو قبل از وقت ہی خریدی گئیں، ان میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے حالانکہ انہیں اب تک استعمال بھی نہیں کیا گیا، ایک اور پریشان کن صورتحال یہ بھی ہے کہ 33؍ ملین ڈالرز کی رقم خرچ کی گئی لیکن اب تک 169؍ بی آر ٹی بسیں نہیں ملیں کیونکہ پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے غلط تاریخیں دی جاتی رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پروجیکٹ پر غور 2013-14ء میں شروع کیا گیا تھا لیکن آنے والے برسوں میں 2017ء تا 2019ء میں کام کے آغاز کے وقت پروجیکٹ کا کیا ہوگا اس کی پیش بینی نہیں کی گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بی آر ٹی کوریڈور کے ابتدائی ڈیزائن کیلئے شروع کیے گئے منصوبوں کے حوالے سے اور بعد میں ڈی ای ڈی کے مرحلے پر آڈٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ پیسے ضایع کیے گئے ہیں کیونکہ منصوبہ بندی کے عمل میں بصیرت کا فقدان تھا۔
رپورٹ میں جن نقصانات کی نشاندہی کی گئی ہے وہ یہ ہیں:… 10.4؍ ارب روپے مالیت کی غیر مجاز تبدیلیوں، کنکریٹ کی اضافی مقدار کی فراہمی کیلئے ہونے والے 20؍ کروڑ روپے کے نقصان، توڑ پھوڑ کے بعد حاصل ہونے والے سامان کی ریکوری نہ ہونے سے ہونے والے 5؍ کروڑ 48؍ لاکھ روپے کے نقصان، تنخواہوں کے متعین کردہ نظام کی عدم موجودگی میں کی جانے والی ساڑھے 9؍ کروڑ روپے کی ادائیگیوں، سیونگ اکائونٹ میں رکھی رقم سے حاصل ہونے والا ایک کروڑ 20؍ لاکھ روپے کا منافع سرکاری خزانے میں جمع نہ کرانے، افسران کو غیر مجاز انداز سے ساڑھے 4؍ کروڑ روپے کی ادائیگی، مالیاتی گوشواروں میں حاصل ہونے والے ایک کروڑ 20؍ لاکھ روپے کے سود کا ذکر نہ کرنا، سالانہ 1.6؍ ارب روپے کی سبسڈی کے متعلق منظور شدہ پی سی ون اور بزنس ماڈل میں میں تضادات ہونا۔
تزئین و آرائش پر 71؍ کروڑ 60؍ لاکھ روپے کا فضول خرچ، سڑکوں کی تعمیرات اور بجلی کے کام، 7.9؍ ارب ڈالرز خرچ کر کے بی آر ٹی پروجیکٹ کی بسیں قبل از وقت خریدنا، بسوں سے کوئی آمدنی بھی نہیں ہوئی اور ان کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے جبکہ ان کا وارنٹی کا عرصہ بھی ختم ہونے والا ہے۔
بسیں سڑکوں پر آئی ہی نہیں اور ان کی قدر میں ہونے والی کمی سے ہونے والا ایک کروڑ روپے کا نقصان، کارکردگی کا جائزہ لیے بغیر 61؍ کروڑ 50؍ لاکھ روپے اور 1.97؍ ملین ڈالرز کا دیا جانے والا تعمیرات کی نگرانی کا ٹھیکہ؛ جرمانے اور لیکوئڈٹی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہونے والے 1.9؍ ارب روپے مالیت کے نقصانات وغیرہ۔
رپورٹ کے مطابق، 2016ء کے دسمبر میں آڈیٹرز کو بھیجی گئی ایک ای میل میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نہیں چاہتا کہ ڈی ڈی ابتدائی ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا جائے۔
منصوبہ بندی کے فقدان کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ 25؍ ستمبر 2017ء کو اپنے میمو میں اے ڈی بی نے کہا تھا کہ ابھی ڈی ای ڈی تیاری کے مراحل میں ہی تھا کہ صوبائی حکومت نے کسی طرح اصل پی سی ون کی منظوری اے ڈی بی کے 587؍ ملین ڈالرز کے تخمینے سے بھی کم میں دیدی۔
رپورٹ کے مطابق، ابتدائی ڈیزائن میں بھی ڈی ای ڈی کنسلٹنٹس کو تکمیل کا مناسب وقت نہیں دیا گیا جو عموماً اتنے بڑے منصوبے کے تفصیلی ڈیزائن کی تیاری کیلئے دیا جاتا ہے۔
فروری 2017ء میں شروع ہونے والا ڈی ای ڈی کنٹریکٹ فروری 2018ء میں مکمل ہونا تھا لیکن غیر ضروری جلدبازی کی وجہ سے سول ورکس نومبر 2017ء میں شروع کیا گیا حالانکہ اس وقت تک تکمیل کے ڈیزائنز بھی دستیاب نہیں تھے۔
اے ڈی بی نے انتہائی محتاط انداز سے یہ تمام خدشات ظاہر کیے اور یہی وجہ ہے کہ پروجیکٹ ایڈمنسٹریشن مینوئل کے صفحہ نمبر 29؍ پر اے ڈی بی نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات کی وجہ سے اس پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے سیاسی دبائو پروجیکٹ کے ڈیزائن اور اس پر عملدرآمد پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔
اس سے ایک مرتبہ پھر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی پلاننگ کا عمل اس قدر کھوکھلا تھا کہ وہ پروجیکٹ کی تکمیل کا مناسب وقت تک طے نہ کیا جا سکا۔ اے ڈی بی کو ان تمام باتوں کا قصور وار قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بینک نے کام کے آغاز سے قبل ہی اپنی ذمہ داری پوری کر دی تھی۔
پروجیکٹ پر عملدرآمد کے دوران منصوبہ بندی کی تمام خامیاں ظاہر ہوگئیں۔ اس میں بسوں کی قبل از وقت خریداری بھی شامل ہے۔ تجرباتی بنیادوں پر بسیں چلانے کیلئے حاصل کی گئی ان بسوں اور ڈرائیوروں کی تربیت پر ہونے والے اخراجات کے نتیجے میں بسوں کی مینٹی ننس پر رقم ضایع ہوئی کیونکہ یہ بسیں بیشتر عرصہ کھڑی ہی رہیں۔
ڈیزائن میں نقائص اور غیر معیاری کام کی نشاندہی پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ اور اے ڈی بی کر چکے ہیں جنہیں پلاننگ کی ناکامی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ڈی ای ڈی کے حتمی شکل اختیار کرنے سے قبل ہی تعمیراتی کام شروع کر دیا گیا۔
پلاننگ کی ایک اور ناکامی کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ مالی لحاظ سے منصوبے کے موزوں ہونے کا بھی خیال نہیں رکھا گیا اور ٹرانس پشاور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی 16؍ مئی 2018ء کو ہونے والی میٹنگ میں سبسڈی کے آپشنز پر غور کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خراب ڈیزائننگ اور خراب منصوبہ بندی کی وجہ سے منصوبے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
پروجیکٹ کے رہنما اصولوں کے مطابق افرادی قوت ا ور خام مال حاصل نہیں کیا گیا، رپورٹنگ، فنانشل مینجمنٹ اور کوالٹی کنٹرول جیسے اہم جزو کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ آڈٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پروجیکٹ کے بہترین مالیاتی انتظامات کو یقینی بنانے کیلئے حکام فنانشل مینجمنٹ مینوئل پر عمل میں ناکام ہوگئے، اس کا مشورہ اے ڈی بی نے دیا تھا۔
معاہدے میں جس طرح کی رپورٹنگ کے معیارات مقرر کیے گئے تھے ان پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ کوالٹی کنٹرول اور مانیٹرنگ فریم ورک بھی موجود نہیں تھا۔
کنٹریکٹ سسٹم بھی تیار نہیں کیا گیا۔ ٹائم لائن اور شیڈول کئی مرتبہ تبدیل کیے گئے اور تاحال پروجیکٹ کی تکمیل حقیقت پسندانہ انداز میں مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔
اس کے علاوہ، فیڈر رُوٹس پر اب تک ایک بھی بس اسٹاپ تعمیر نہیں کیا گیا اور 5؍ اپریل 2019ء کو اے ڈی بی کے نمائندے نے بھی سست رفتار کام پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
خراب ڈیزائن اور سول ورک کے غیر معیاری کام کا ذکر متعدد مرتبہ کیا جا چکا ہے۔ اے ڈی بی اور حکومت کے درمیان قرضے کے معاہدے کو دیکھیں پروجیکٹ جون 2021ء تک مکمل ہونا ہے۔
تاہم، اے ڈی بی کے خدشات کے باوجود تکمیل کی غیر حقیقت پسندانہ تاریخیں دی جاتی رہیں۔ پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے ابتدائی تخمینہ 49.34؍ ا رب روپے لگایا گیا تھا جو اب تبدیل کرکے 66.4؍ ارب روپے کر دیا گیا ہے۔