• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برداشت کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے ،میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگلے چند دنوں میں ان لوگوں کو چن چن کر قتل کر دوں گا جن سے میں نفرت کرتا ہوں۔ ان متوقع مقتولین کی فہرست میرے ذہن میں موجود ہے اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنی کم علمی بلکہ جاہلیت کے سبب مجھ سے اختلاف رائے کے بہانے الجھتے رہتے ہیں اور مجھے زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان میں ٹاپ پر بلقیس خان عرف بلا ہے جو بلا پان شاپ کا اکلوتا پروپرائٹر ہے اور ایک نہایت ہی بیہودہ شخصیت کا مالک ہے۔ذرا اندازہ لگائیے کہ جس نا معقول مرد کا نام ہی بلقیس ہواس سے کسی معقول بات کی کیا توقع کی جا سکتی ہے! لہٰذا سب سے پہلے تو مجھے اس کا نام ہی پسند نہیں… بلقیس عرف بلا،بھلا یہ کیا نام ہوا…!پھر مجھے اس کی شکل بھی پسند نہیں ،اس کو دیکھ کر حقیقتاً کسی خونخوار بلے کا تصور دماغ میں ابھرتا ہے ۔میں اکثر رات کا کھانا باہر سے کھانے کے بعد ،بلا پان شاپ سے پان ضرور لیتا ہوں اور وہیں کھڑے کھڑے اس سے دو چار منٹ گپ شپ بھی ہو جاتی ہے ۔ کمبخت کا پان اس قدر لا جواب ہوتا ہے کہ کسی اور جگہ کا پان آزمانے کا کبھی خیال ہی نہیں آیا۔یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے مگر پچھلے چند ماہ سے مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے بلّا میرے فراخدلانہ رویے کی بنا پر کچھ زیادہ ہی فری ہوتا جا رہا ہے ۔ایک دن میرے کاندھے پر ہاتھ مار کر کہنے لگا ”باؤ بشیر ! کیا خیال ہے تمہارا،یہ حکومت رہے گی یا جائے گی ؟“مجھے بلّے کی یہ بے تکلفی سخت ناگوار گزری ۔واضح رہے کہ میرا پورا نام بشیر الزمان صدیقی ہے اور مجھے کسی نے آج تک اس بیہودہ انداز میں باؤ بشیر کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔ میں نے بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے بلّے کے ہاتھ میں پیسے پکڑائے اور وہاں سے نکل آیا۔اس کے بعد بلّے نے یہ وطیرہ بنا لیا کہ جب بھی میں اس سے پان لینے جاتا وہ کسی لنگوٹیئے یار کے انداز میں پیش آتا ،زبردستی اپنے غلیظ ہاتھوں سے میرے منہ میں پان ٹھونسنے کی کوشش کرتا اور اس کے بعد میری حالت دیکھ کر نہایت مکروہ آوازمیں قہقہہ لگاتا اور دیگر گاہکوں کے سامنے ٹھٹھا کرتا ۔اس روز تو حد ہی ہو گئی جب اس نے مجھے ”بشیرے یار“ کہہ کر مخا طب کیا، میں نے اسے اشاروں کنایوں میں باور کروانے کی کوشش کی کہ مجھے میرے صحیح نام سے پکارا جائے مگر اس جاہل مطلق کو ککھ سمجھ نہ آئی اور اس نے اسی انداز میں مجھے پان کھلانا چاہا ۔اس روز میں نے تہیہ کر لیا کہ بلّے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔یوں بھی مجھے محلے کے ایک بھنگی سے اطلاع ملی تھی کہ پان شاپ کی آڑ میں بلّا چرس کے سگریٹ بیچتا ہے۔ میں نے اس بھنگی کو ان سگریٹوں کی ایک ڈبی لانے کے لئے کہا مگر اس نے لا کر نہیں دی۔اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ بھنگی سچ ہی کہہ رہا ہوگا۔یہ تمام شواہد بلّے کو قتل کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
فہرست میں دوسرا نام چھیمو کا ہے ۔چھیمو میری محلے دار ہے اور عمر کے اس حصے میں ہے جہاں اس کا حلیہ بیان کرنے کے لئے محض خوبصورت کہہ دینا کافی ہے ۔اس لڑکی نے پورے محلے میں عذاب برپا کیا ہوا ہے ،سارا دن پھرکی کی طرح گھومتی ہے ،کبھی کالج اورکبھی ٹیوشن ۔اس کا اصل نام تو شائستہ ہے مگر میں نے ہمیشہ اسے پیار سے چھیمو ہی کہا ہے ۔تاہم یہ اور بات ہے کہ اس نے کبھی میرے پیار کا مناسب جواب نہیں دیا ۔کالج کی بس پکڑتے ہوئے اکثر میں نے اسے اپنی گاڑی میں لفٹ دینے کی کوشش کی ہے (محض یہ سوچ کر کہ بیچاری کہاں بسوں میں دھکے کھاتی پھرے گی)مگر چھیمو کی بچی نے کبھی مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔ایک دفعہ تو حد ہو گئی ،میں چھیمو کے گھر کے دروازے کے آگے اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا ،وہ کالج جانے کے لئے نکلی تو یکایک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔میں نے فقط انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت اسے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے لئے کہا مگر اس نے شکریہ ادا کرنا تو درکنار جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا اور فوراً اپنی کتابوں کی چھتری سی بنا کر ایک رکشے میں بیٹھی اور یہ جا وہ جا ۔بائی دی وے ،چھیمو کوئی شرافت کی پتلی نہیں ہے، سر پر اس انداز میں چادر ڈال کر گھر سے نکلتی ہے کہ گمان ہوتا ہے چادر اب ڈھلکی کہ اب ۔یقینا چادر کی آڑ میں وہ چست قسم کا لباس پہن کر کالج جاتی ہو گی!مجھے محلے میں کسی نے بتایا کہ چھیمو کا چکر اس کے کسی کلاس فیلوسے چل رہا ہے ،اس لڑکے کے گھر والے ایک آدھ مرتبہ چھیمو کے گھر آتے بھی دیکھے گئے ہیں ،ان کے ہاتھ میں مٹھائی کے ڈبے تھے۔جس دن سے میں نے یہ خبر سنی ہے ،میرا خون کھول اٹھا ہے ،مجھ سمیت کوئی بھی غیرت مند،کم از کم اپنے محلے میں، کھلم کھلا عشق معشوقی برداشت نہیں کر سکتا ۔میں نے اس بابت علاقے کی مسجد کے مولوی سے فتویٰ لینے کی بھی کوشش کی کہ آیا فحاشی پھیلانے والی عورت کا قتل جائز ہے تو اس نے مجھے یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ وہ فتویٰ دینے کا اہل نہیں ۔اس دن کے بعد سے وہ مولوی بھی میری ہٹ لسٹ پر ہے ۔
اس کے بعد میری فہرست میں ایک ایسے شخص کا نام ہے جو اپنے تئیں بہت عالم فاضل بنتا ہے مگر در حقیقت ایک گھٹیا اور جعلی قسم کا انقلابی ہے ۔اس کا نام پروفیسر سرخا ہے اور اس کا دفتر میرے دفتر کے بالکل سامنے ہے اور اکثر آتے جاتے ہمارا ٹاکرا ہو جاتاہے ۔ایک دو مرتبہ اس سے تفصیلی گفتگو کا موقع بھی ملا جس دوران یہ انکشاف ہوا کہ وہ کاروباری طبقے کے سخت خلاف ہے ،اس کا خیال ہے کہ بزنس مینوں نے خون چوس چوس کر اس ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ جس کھیت سے دہقان کو روزی میسر نہ ہو ،اس کھیت کے خوشہ گندم کو جلا دینا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔مجھے کسی نے بتایا ہے اس قسم کی باتیں سوشلسٹ اور کمیونسٹ ٹائپ لوگ کرتے ہیں جو عموماً لا دین ہوتے ہیں اور مذہب کو نہیں مانتے ۔جس دن سے مجھے یہ پتہ چلا ہے اس دن سے میرے دل میں اس سرخے کے خلاف آگ سی لگی ہوئی ہے ۔میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس ملحد کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔میں نے اپنے وکیل ارشد جگر ایڈووکیٹ سے بھی مشورہ کیا ہے ،اس نے مجھے یہ لطیف نکتہ سمجھایا ہے کہ اگر میں اس کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کروا دوں کہ وہ ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی سازشیں کر رہا ہے توپھر اس کی ضمانت بھی نہیں ہوگی ۔مشورہ نہایت عمدہ ہے ،اس لئے ایف آئی آر درج کروانے کے بعد میں اس سرخے کو قتل کروں گا اور سرخرو ہو جاؤں گا !
میری فہرست میں چند لوگ اور بھی شامل ہیں جو مجھے زہر لگتے ہیں اور میرے مطابق ان کا زندہ رہنا کسی طور بھی معاشرے کے لئے سود مند نہیں ہے ۔بلّے ،چھیمو اور پروفیسر سرخے کی طرح یہ لوگ بھی سوسائٹی کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہیں لیکن اس کے باوجود کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں انہیں مارنا کسی کار خیر سے کم نہیں ۔اس ضمن میں میڈیا کے چند لوگوں سے بھی میں نے رابطہ کیا اور اپنے ان خیالات کا اظہار کیا۔ان میں سے بیشتر نے مجھے یقین دلایا کہ میں قدم بڑھاؤں ،وہ میرے ساتھ ہیں۔ ایک دو نے تو اس حد تک کہا کہ اگر میں چاہوں تو قتل کی لائیو کوریج بھی یقینی بنائی جاسکتی ہے ۔اسی طرح چند نکتہ فہم لوگوں نے مجھے ایسی ٹپس بھی دیں جن پر عمل کرنے کی صورت میں پولیس اور عدالتیں بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی ۔ان تمام باتوں کے پیش نظر میرے حوصلے مزید بلند ہو گئے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ یہ معاشرہ مردہ ہو تا جا رہاہے …ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں !
تازہ ترین