• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں پولیو کا خطرہ مستقل طور پر موجود

دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں پولیو کا خطرہ مستقل طور پر موجود


ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں پولیو کا خطرہ مستقل طو ر پر موجود ہے، تین اضلاع حساس قرار دیئے جاچکے ہیں جبکہ سرحد پار نقل و حمل بھی پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنی ہوئی ہے۔

بلوچستان کے تین اضلاع کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللّٰہ کو  پولیو کے حوالے سے انتہائی حساس قرار دیا جاچکا ہے جہاں انسداد پولیو مہم کا ہر ماہ اور سہ ماہی بنیادوں پر انعقاد کروایا جاتا ہے تا کہ چھ ماہ سے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو معذوری سے بچایا جاسکے۔

صوبے کے جن علاقوں میں پولیو وائرس موجود ہے وہاں خصوصی پولیو مہم چلائی جارہی ہے۔

صوبے میں پولیو وائرس کے پھیلاو کی بڑی وجہ پاک افغان سرحد پر لوگوں کی بڑی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر نقل و حرکت ہے۔

کوآرڈینیٹر ای او سی بلوچستان راشد رزاق کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں لوگوں کے پاس پولیو سے متعلق آگاہی کی کمی ہے اور وہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے تاہم ہماری کوشش ہے کہ انہیں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر آمادہ کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی سرحد نزدیک ہے اور وہاں سے آمد ورفت بھی اس مرض کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال صوبے میں پولیو سے متاثرہ 12 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جو ماضی کے مقا بلے میں دو گنا زائد تھے جس نے ڈبلیو ایچ او سمیت انسداد پولیو پر کام کرنے والے اداروں کو مزید الرٹ کر دیا۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبے کو پولیو فری بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کا کردار اہم ہے۔

سینئر ڈاکٹر یونیسیف ڈاکٹر عزیر احمد کہتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں کوئی کمی رہ گئی ہو جس کی وجہ سے  گزشتہ سال کچھ ذیادہ کیسز رپورٹ ہوئے، تاہم ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آن بورڈ کریں تا کہ اپنے بچوں کو اس مرض سے بچایا جا سکے۔

ماہرین طب کا کہنا ہے کہ پولیو وائرس متاثرہ بچے کے ساتھ ساتھ دو سو خاندانوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

تازہ ترین