• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: عامر نذیر۔۔ مانچسٹر
پاکستان میں جہاں بہت سے داخلی اور خارجی مسائل موجود ہیں وہاں ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ جو ملکی موجودہ صورتحال کی بنیادی وجہ ہے وہ مسئلہ ہے فرقہ واریت۔ ہمارا مذہب اسلام جس کے لفظی معنی امن کے ہیں گزشتہ کچھ ادوار سے کافی تنقید کا سامنا کررہا ہے۔ اس میں Westکی کافی مہربانیاں ہیںلیکن اپنوںنے بھی کسی قسم کی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ قرآن حکیم میں تقسیم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں اگر موجودہ صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو حالات اور واقعات پاکستان میں بالکل مختلف ہیں۔ یہ میری مسجد ہے اور وہ تمہاری۔ کیسی دردناک بات ہے ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک کتاب کے باوجود ہم کیڑے مکوڑوں کی طرحمسلے جارہے ہیں۔ دوستو فرقہ واریت ہے ’’کس بلا‘‘ کا نام۔ Easy Definationیہ ہے کہ کسی بھی معاملہ پر اختلاف رائے ہونا اور جس سے یعنی دوسرے مسلمان بھائی سے اختلاف ہونا اسے پہلے تو مسلمان ماننے سے انکار کردینا اور اگر ممکن ہو تو جان سے ہی مار دیا جائے۔ پاکستان میں اس وقت ان گنت مسلک یا فرقے موجود ہیں۔ محلوں میں تین سے چار مساجد تو نارمل سی بات ہے۔ ہم اس فرقہ واریت کی دلدل میں اس حد تک دھنس چکے ہیں کہ دوسرے فرقہ والے مسلمان کے جنازے کو کاندھا دینا بھی حرام سمجھتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میںبھی صرف فکر امت کی، نبی اکرمؐ کی وہ قیمتی احادیث جن میںسرفہرست آپؐ کی ایک حدیث جس میں آپؐ نے صحابہ اکرامؓ کو فرمایا کہ امت پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ کفار ان پر ایسے جھپٹیں گے جیسے بھوکے کھانے پر۔ دوستو افغانستان، شام، کشمیر، لیبیا، مصر اور اب ایران سب پر کفار اس طرح حملہ آور ہیںجیسے اس حدیث میںذکر کیا گیا۔ اس معاملے کی اگر وجہ کھوجی جائے تو صرف ایک امت کی تقسیم اور اس تقسیم کی اصل وجہ فرقہ واریت کا وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ مسلم امت اور خصوصاً پاکستان میںمکمل سرایت کرچکا ہے۔ دوسرے مسلمان کے نقصان پر ہم لوگ صرف اس لئے خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ میرے فرقہ کا نہیں۔ علماء نے جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے دوسرے فرقہ کو کافر اور اپنے مسلک کو جنت کا اصل حقدار ثابت کردیا۔ مختلف ادوار میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چلنے والی حکومتوں نے فرقہ واریت کو لے کر کسی قسم کی کوئی پالیسی نہیں بنائی بلکہ مضحکہ خیز اقدامات کئے جیسے 10محرم میںڈبل سواری پر پابندی اور رمضان کے مہینے میںسپیکر پر Banاور بس۔ فرقہ واریت کی اصل جڑ وہ Literatureہے اور گھر گھر میں موجود ہے جس کے لئے کوئی پالیسی نہیںبنائی۔ ایسے مصنف کبھی مکمل طور پرBanنہیںکئے گئے جو ایک بھائی کو دوسرے کا گلا کاٹنے کا درس دیتے ہیں۔ دوستو بات پاکستان کی ہو رہی ہے تو معاشرہ اس حد تک Polarisationکا شکار ہے کہ مسافر دوسرے صوبے کے اندر بھی صرف صرف اپنے مسلک یا فرقہ کی مسجد تلاش کرتاہے۔ اگر کسی کو یاد ہو تو ہمارے ملک میں 1980ء تک کبھی دھماکے نہیںسنائی دیئے تھے۔ ہر طرف خوشحالی اگر نہیں بھی تھی پر ایک دوسرے کی مساجد، امام بارگاہ پر گولیاں نہیںچلتی تھیں۔ دوستو! اب چلتے ہیں اس فرقہ واریت کے قلع قمع کی طرف۔ ہمیںاس ملک میںاشفاق احمد، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، بانو آپا، پروفیسر احمد رفیق، ایدھی صاحب جیسے لوگوںکی یا ان کی سوچ رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے، کیسی عجیب بات ہے ایدھی صاحب کے گھر کے باہر ایک خالی جھولا ہوتا تھا جس میں ہر روز لوگ نومولود بچہ رکھ کر چلے جاتے تھے اور ایدھی صاحب بغیر کسی ID، مسلک، فرقہ کے اس بچے کو اندر لے آتے۔ یہ تمام لوگ ہر روز معاشرے کے منہ پر زوردار تھپڑ مارتے تھے اور کہتے تھے ہم صرف اور صرف مسلمان ہیں۔
تازہ ترین