اسلام آباد ( طاہر خلیل ) ایک طرف جہاں سیاسی محاذ آرائی باالعموم قومی مزاج کا حصہ بنتی جارہی ہے وہیں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نہ صرف یہ کہ سیاسی اتفاق رائے کے عملبردار کے طور پر ابھر رہے ہیں اور قومی اسمبلی جیسے موقر ادارے کے فروغ اور استحکام کیلئے کوشاں ہیں ۔گزشتہ روز 15 ویں قومی اسمبلی کے 5 سالہ سٹریٹجک پلان کی رونمائی بلا شبہ احسن اقدام ہے یہ پلان اسد قیصر کی زیر نگرانی ایوان کی تمام جماعتوں سے لئے گئے سینئر ارکان پر مشتمل کمیٹی نے متفقہ طور پر مرتب کیا جیسے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ گزشتہ جون میں قومی اسمبلی نے بجٹ اجلاس میں اتفاق رائے سے منظور کیا گیا اگرچہ سٹریٹجک پلان بنانے کی روایت تو موجودتھی لیکن اسے ایوان کے سامنے پیش کرنا اور اس پر تمام اراکین کی رائے کو شامل کرنا وہ نئی احسن جمہوری روایت ہے جو بلاشبہ اسد قیصر کا کارنامہ ہے ، سٹریٹجک پلان بدلتے زمانوں میں قومی اسمبلی کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اسے تیکنیکی تقویت دینے ، اسکی قانون سازی کی اہلیت کو بہتر بنانے ، اسکی کمیٹیوں کے نظام کو حقیقی طور پر موثر بنانے اور رائے دہند گان سے اسمبلی کے روابط کو مضبوط بنانے کا مکمل لائحہ عمل ہے سوشل میڈیا کے عہد میں جہاں خبر بجلی کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور عوامی آگہی بارہا معاشرتی بے چینی کا سبب بنتی ہے وہاں ہر مسئلے کا حل ایک نئے قانون میں ڈھونڈ نےکار جحان فروغ پارہا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک ہی مسئلے پر قانون پر قانون بن رہا ہے جو پیچیدگیوں کو جنم دے رہا ہے قانون بنانے سے زیادہ موجودہ قوانین کی ہم آہنگی اور ان پر عمل درآمد کو موثر بنانے کی ضرورت زیادہ ہے دوسری طرف عوامی نمائندوں کی یہ صلاحیت کہ وہ بہتر قوانین لکھ سکیں کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے اس حوالے سے نئے سٹریٹجک پلان میں باالخصوص توجہ دی گئی ہے جہاں یہ لیجسلیٹو ڈرافٹنگ کو مقامی اور بین الاقوامی جامعات کے سکولز سے لئے گئے قانونی ماہرین پر مشتمل لیجسلیٹو ڈرافٹنگ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیاہے وہیں لیجسلیٹو ریویو کے ذریعے موجودہ قوانین کو بھی باریک بینی سے دیکھا جارہا ہے اسی طرح ملک بھر کی بہترین جامعات اور تحقیقی اداروں کی مشاورت سے ہر ایک قائمہ کمیٹی کیلئے مخصوص تھنک ٹینک بھی تشکیل دیئے جارہے ہیں جو پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے رکھے جانے والے معاملات پر انہیں بہترین ، پیشہ وارانہ مشورے اور رہنمائی فراہم کریں گے اس ضمن میں ملک بھر کی زرعی یونیورسٹیز کے وائس چانسلر ز نے فوڈ سیکورٹی کی قائمہ کمیٹی اور زراعت پر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ گزشتہ ہفتے معاہدوں پر دستخط کئے جبکہ ایس ڈی پی آئی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی ، خزانہ اور اقتصادی امور اور سی پیک کی متعلقہ قائمہ اور پارلیمانی کمیٹیوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں ایک اور اہم اشتراک نسٹ (NUST)جیسے قومی ادارے کے سکول آف پبلک پالیسی کے ساتھ خارجہ امور اور سی پیک کی کمیٹیوں کے ساتھ ہونے والا معاہدہ بھی ہے،یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے عام مشاہدہ ہے کہ قائمہ کمیٹیاں صلاحیت کی کمی کے باعث تاحال انتظامیہ پر موثر نگرانی کا اہم فریضہ انجام دینے میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کر پائیں ،جامعات کے دانشوروں کی مشاورت اور معاونت اس مسئلے کو حل کرنے کا سبب بن سکتی ہے اسی طرح قومی اسمبلی کے ادارے کو عوام سے مربوط کرنے کیلئے میڈیا کے شعبے کو ازسر نو استوار کیا گیا ہے اس حوالے سے پارلیمنٹ میں سوشل میڈیا کا مکمل اور تمام ضروری سہولتوں سے آراستہ دفتر قائم کر دیا گیا ہے ،پارلیمانی سفارت کاری ایک ایسا اہم شعبہ ہے جو موجودہ عالمی صورتحال میں ایک پر امن اور جمہوری پاکستان کے تصور کو اجاگر کرنے کیلئے اہم ہے ۔ نئے پلان میں اس شعبے کو فوقیت دی گئی ہے اور اس حوالے سے نئے دوستوں کو تلاش کرنے اور بھروسہ مند ساتھیوں کے ساتھ اشتراک کو وسعت دینے کا مربوط پلان ترتیب دیا گیا ہے سپیکر اسد قیصر نے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں (Look Afriqa)’’ لک افریقہ ‘‘ کے نام سے نئے پارلیمانی دوستی گروپوں کے قیام کی منظوری دی گئی ہے اور یوگنڈا ، روانڈا، کیمرون ،زمبیا، برونڈی ، تنزانیہ ، انگولا ، جیسے کئ ملکوں کے ساتھ پارلیمانی روابط کو استوار کیا گیاہے ،جس کے ذریعے سیاسی تعلقات کے ساتھ اقتصادی اور کاروباری شعبے میں بھی نئے میدان تلاش کرنے پر بھی توجہ دی گئی ہے ،یہ تمام اقدامات بلاشبہ ایک مضبوط ، نمائندہ اور جواب دہ پارلیمان کیلئے ضروری ہیں لیکن ساتھ ہی سیاسی اتفاق رائے بھی اس ادارے کیلئے ناگزیر ہے۔