اپنوں نے وہ رنج دیئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں
اس نگری میں قدم قدم پر سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں
( حبیب جالب)
وطن سے دوروطن کی یاد بہت آتی ہے ، میں جب کراچی میں ہوتا ہوں تو نہ خبریں سننے کا وقت ملتا ہے اور نہ ہی اخبار کو تفصیل سے پڑھنے کی فرصت ہوتی ہےمگر جیسے ہی ملک سے باہر نکلوں انٹر نیٹ پر اپنے ملک کے اخبارات پڑھنے شروع کردیتا ہوں اور جہاں موقع ملتا ہے پاکستانی چینل دیکھتا ہوں، ابھی بھی گزشتہ دوہفتوں سے میں شکاگو میں تھا ، گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی میرے میزبان رانا زاہد صاحب مجھے23مارچ کو شکاگو کے پاکستان قونصلیٹ کی طرف سے ہونے والی یوم پاکستان کی تقریب میں وہاں کے ہوٹل میں لے گئے ایک پاکستانی لاکھانی صاحب کا ہوٹل ہے اور تمام اہتمام بھی انہیں کی طرف سے تھا ۔ پروقار تقریب تھی جسے ایک بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے شرکت کا اعزاز بخشا ۔ وطن واپسی پر آتے ہی لاہور کے اقبال پارک میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قیمتی جانوں کے زیاں کی افسوسناک خبرسنی اور پھر اسلام آباد اور کراچی میں سنی تحریک کی طرف سے دھرنوں نے افواہوں کے انبار لگادیئے اور دوستوں نے ایک دوسرے پر ایس ایم ایس کی بوچھاڑ کرکے ایسی سراسیمگی پھیلا دی کہ یوں لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے حکومت گرنے والی ہے پھر وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کی خبر نے اور زیادہ سسپنس پیدا کردیا مگر شام کو خطاب کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوگیا پی آئی اے کے دھرنے کے بعد اسلام آباد اور کراچی میں دھرنے ختم کروانے پر وزیراعظم نواز شریف کے گراف میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اب تو یہاں تک افواہیں ہیں کہ یہ دھرنا خود کروایا گیا تھا تاکہ آئندہ مستقبل قریب میں ہونے والے دھرنوں کو ناکام کردیا جائے بہرحال میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا ، دھرنا حکومت نے خود نہیں کروایا تھا ۔ یہ دھرنا ہوا تھا اور بری طرح ناکام ہوگیا اور اسطرح نواز شریف کا گراف پی آئی اے کے دھرنے کوگرانے کے بعد مزید اونچا ہوگیا ہے ، اگرچہ اس دھرنے کی وجہ سے وزیر اعظم کا برطانیہ میں دوروزہ قیام اور پھر امریکہ کا دورہ منسوخ ہوگیا ۔ برطانیہ کی روانگی تو اقبال پارک کے افسوناک واقعہ کی وجہ سے ہوئی مگر امریکہ کا دورہ فضول میں منسوخ کرنا پڑا ۔ اگر دھرنے کا یہی حشر ہونا تھا تو دورہ منسوخ کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ بہرحال ہمارے حکمران بیرون ملک دوروں کے شوقین ہیں اور انہیں نیا دورہ نکالنے میں دیر نہیں لگتی فوراً ہی کوئی اور دورہ نکل آئے گا مگر امریکہ والے دورے کی کمی پوری نہیں ہوسکے گی ۔ جوں جوں جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ نزدیک آرہی ہے عوام کا انہیں روکنے کے لئے اصرار بڑھتا جارہا ہے ۔ سارے شہر میں پوسٹر آویزاں ہیں جن میں جنرل راحیل شریف کی بہت خوبصورت تصویر کے نیچے لکھا ہے ، ’’ جانے کی باتیں جانے دو ‘‘ یہ اس حوالے سے ہے کہ جنرل صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ توسیع نہیں لیں گے ایک اور نیا پوسٹر آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور جنرل صاحب کے جانے سے ادھورا رہ جائیگا ، اسمیں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہندوستان پاک چائنا کاریڈور کا سخت مخالف ہے اور را کے ذریعہ بلوچستان میں بدامنی پیدا کرکے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ، اس چیز کی نشاندہی میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں کردی تھی اور آپ کو این جی اوز کے کردار سے بھی آگاہ کیاتھا میں نے لکھا تھا کہ ہماری شکلوں کے ہمارے جیسے لوگ ہماری صفوں میں گھس کر را کی نمائندگی کرتے ہیں ، اب دیکھئے را کا ایجنٹ ہندوستان کی نیوی کا افسر ہماری ایجنسیوں نے گرفتار کرلیا ہے ، یہ تو ایک پکڑا گیا ہے پتہ نہیں اسکے جیسے اور کتنے ہیں جو ہماری صفوں میں گھسے ہوئے ہیں ۔ عوام کو چاہئے کہ اپنے اردگرد ایسے لوگوں پر نظر رکھیں جو پر تعیش آرام دہ زندگی گزارتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے ایسے ہی لوگ ایجنسیوں کے تنخواہ دار ہوتے ہیں اور خفیہ کام کرتے ہیں ایسے لوگوں پر نظر رکھنا اور انکی نشاندہی کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروںکیلئے ضروری ہے ، اسطرح ہم خاموشی سے اپنے ملک اور قوم کی خدمت کرسکتے ہیں اور ملک دشمن عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں گرفتار کرواسکتے ہیں ۔ وطن واپسی پر میں نے ایک مرتبہ پھر ملک کو افواہوں کی زد میں دیکھا ہر باخبر شخص نئی کہانی سنارہا ہے اورخود کو سب سے زیادہ معتبر اور باخبر ظاہر کررہا ہے ۔ کچھ اینکر حضرات بھی گردونواح پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور افواہوں میں اضافے کا سبب ہیں ۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اس ملک میں جو افواہ ہوتی ہے وہ تھوڑے دنوں کے بعد خبر بن جاتی ہے یہ بات میں نے اپنے سابقہ تجربے کی بنیاد پر کی تھی1996کی بات ہے میں نے آصف زرداری صاحب سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کی حکومت ختم ہورہی ہے اور یہ افواہ کراچی میں بہت گرم ہے ،ہنس کرکہنے لگے ایسی کوئی بات نہیں ۔آخر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی تو اپنی پارٹیاں چلانی ہیں لہٰذا وہ ایسی باتیں پھیلا کراپنے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں کہ حکومت جانے والی ہے ۔ آصف صاحب کی باتوں سے میری تسلی ہوگئی لیکن چند دن کے بعد ہی پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ خود فاروق لغاری نے کردیا
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
گویا جو افواہ تھی وہ خبر بن گئی۔اسکے بعد آصف صاحب دوستوں کو بتاتے تھے کہ مجھے خواجہ نے بتایا تھا مگر میں نے یقین نہیں کیا ۔ اب بھی صورت حال کچھ ایسی ہے خواجہ پھر بتارہا ہے ، کوئی یقین کرے یا نہ کرے ۔ آخر میں داغ دہلوی کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں
زندگی عشق میں مشکل ہے تو مرجائیں گے
اب سے وہ کام کریں جوآساں ہوگا
آپ کے سر کی قسم داغ کو پرواہی نہیں
آپ سے ملنے کا ہوگا جسے ارماں ہوگا