• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کہانی 165سال قبل 1855ء میں جارج میرڈیتھ نے لکھی جو طویل عرصہ تک لاہور بورڈ میں انگریزی کے نصاب میں انٹرمیڈیٹ کے اسٹوڈنٹس کو پڑھائی جاتی رہی۔ کہانی کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ فارس کا بادشاہ شاہ پیش جب برسر اقتدار آیا تو اس نے ملک میں ترقیاتی کام شروع کروانے کا منصوبہ بنایا۔ نئے شاہی محل بنانے کیلئے پیشکشیں طلب کرنے کیلئے منادی کروائی گئی جس کے بعد چار سالوں میں شاندار محل کی تعمیر کیلئے ٹیم کا تعین کیا گیا۔ دربار میں اس منصوبے پر غور و خوض کیا گیا۔ زبان کے دھنی، پرلے درجے کے خوشامدی شاہی معمار خپل نے انتہائی چرپ زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی تصویر بنائی کہ بادشاہ نے محل بنانے کیلئے اسے ہی سلیکٹ کرلیا۔ مکمل اختیارات کے ساتھ شاہی معمار خپل اس منصوبے کا بیک وقت نگران اور معمار مقرر ہوا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ خپل ایک وصفِ خاص کا حامل تھا۔ اسے کام کرنے کی قطعی عادت ہی نہ تھی بلکہ بڑی بڑی باتیں بنانا، کہانیاں گھڑنا، سبز باغ دکھانا اور سراب تخلیق کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وہ نہ صرف خود لطیفے بازی پسند کرتا بلکہ مزدورں اور کارکنوں کو بھی پاس بٹھا لیتا اور اس کے علاوہ عملی طور پر کوئی ٹھوس کام نہ کرتا۔ صبح سے شام تک خوش گپیاں کرتے کرتے دن مہینے اور مہینے سالوں میں بدل گئے۔ چار سالوں میں محل تو نہ بنا، البتہ ہر لحاظ سے ناکمل ڈھانچہ بمشکل اٹھایا جا سکا۔ گاہے گاہے خپل دربار میں جاکر بادشاہ کو ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹ دیتا اور بتاتا کہ وہ کس قدر محنت سے شاندار محل تعمیر کر رہا ہے۔ آخر ایک روز بادشاہ خود زیر تعمیر محل کا معائنہ کرنے موقع پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ سائٹ دیکھ کر ہکا بکا رہ جاتا ہے کہ وہاں تو کچھ بھی مکمل تعمیر نہ ہو پایا تھا۔ بادشاہ خپل سے مخاطب ہوا، جو شاندار محل تم نے بنایا اس محل کا دورہ تو کروائو۔ باتونی خپل محل کا دورہ کیا کرواتا، اس نے فوراً ہی محل کے جائے وقوعہ کی تعریف کرنا شروع کر دی اور بولا، بادشاہ سلامت کیا کہنے آپ کے حسنِ انتخاب کے، محل کی تعمیر کیلئے اتنا پُرفضا اور خوشگوار مقام چننے پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ بادشاہ نے اسے ٹوکتے ہوئے استفسار کیا وہ شاہی تالاب تو دکھائو جس کا ذکر تم کل کر رہے تھے۔ آگے ٹھنڈے پانی کا تالاب تھا جو ابھی تک نامکمل تھا، اسے دیکھ کر خپل رک گیا اور اس سے ہٹ کر بڑھنے لگا کہ سپاہیوں نے بادشاہ کے اشارے پر اسے روکا اور سیدھا بڑھنے پر مجبور کیا۔ خپل پانی کے گڑھے میں گر گیا۔ سپاہیوں نے اسے پانی میں ڈبکیاں لگوائیں جب اسے باہر نکالا گیا تو وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ بادشاہ نے ہنس کر کہا شاہی تالاب تو بہت ہی پسند آیا۔ خپل اب آگے بڑھو اور شاہی ہال میں لے چلو۔ شاہی نشست کہاں ہے؟ پل نے ایک خیالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ظل الٰہی یہ رہی شاہی نشست۔ دیکھئے کس قدر چمک رہی ہے اور اس کے سنہری بازو تو دیکھئے بالکل آپ کے شایانِ شان ہیں۔ بادشاہ شاہ پیش نے پہلے بغور خپل کو دیکھا اور ارد گرد اس کے کارکنوں پر نظر ڈالی۔ بادشاہ کو اپنے سلیکٹ کیے گئے معمار خپل کے دعوے پر سخت غصہ آ رہا تھا لیکن ظاہر نہ کیا اور وہیں کھڑے کھڑے اس نے خپل کو مثالی سزا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ بادشاہ نے خپل کو شاہی کرسی پر بیٹھنے کا حکم دیا، لیکن وہاں کرسی تھی ہی نہیں۔ سپاہیوں نے اسے خیالی کرسی پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ جب وہ گر جاتا سپاہی اسے نیزہ مارتے اور پھر وہ کرسی بن جاتا۔ اب شاہی باغ لیجائو بادشاہ نے حکم دیا۔ تھکاوٹ سے چور خپل گھسٹ گھسٹ کر باغ کی جگہ پر پہنچا وہاں پھولوں کے بجائے کانٹے دار جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ بادشاہ نے طنزاً تعریف کرتے ہوئے اسے پھولوں کو توڑ کر سونگھنے کا حکم دیا۔ خپل کانٹے دار جھاڑیاں اپنی ناک تک لے گیا جس سے خارش ہونے لگی لیکن سپاہیوں نے اس کے ہاتھ جکڑ لیے، جس وجہ سے وہ ناک نہ رگڑ سکا لیکن اسے مسلسل تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر میں بادشاہ نے خپل کو انار کا درخت دکھانے کا حکم دیا لیکن لگایا ہوتا تو دکھاتا۔ بادشاہ نے خپل کو سات دن اور سات راتوں تک دونوں ہاتھوں پر انار رکھ پر بازو پھیلا کر کھڑے رہنے کی سزا دی۔ خپل کو بعد ازاں کیا سزا دی گئی، اس بارے کہانی میں کچھ واضح نہیں ہے۔ تاہم سبز باغ دکھانے، وعدہ خلافی کرنے، ذمہ داری پوری نہ کرنے، دھوکا دینے، جھوٹ بولنے، گمراہ کرنے، شاہی خزانے کو نقصان پہنچانے پر بادشاہ نے شاہی معمار کو موقع پر جو سزا دی اس سے شاہی بیورو کریسی، کارکنوں اور بعد ازاں عوام کو سبق مل گیا۔ ہمارے ملک کے شاہی معمار نے بلند و بانگ دعوے کرکے ریاست مدینہ کی تعمیر کی ذمہ داری لی تھی۔ چرب زبان شاہی معمار نے ایک کروڑ مکان بنانے، پچاس لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا، ڈیڑھ سال بیت گیا، نالائقی اور نااہلی سے ہزاروں کارخانے بند کروا دیے، عوام کو لنگر خانوں پر لگا دیا۔ اصل سکون قبر میں قرار دینے کے بعد بائیس کروڑ عوام کو ہوشربا مہنگائی کے دوزخ میں جھونک دیا اور نیا اقوال زریں جاری کر دیا کہ کامیاب انسان بننا ہے تو سرکاری نوکری کے چکر میں نہ پڑیں۔ عوام شاہی معمار کی زبان دانی اور دروغ گوئی سے بھر چکے اور بادشاہ سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ کچھ کرے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ڈبل شاہ ہاٹ منی نظریہ پر مشتمل ڈنگ ٹپائو مستند ناکام پالیسی سے ملک ِ خداداد دیوالیہ ہو جائے۔

تازہ ترین