• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیر اہتمام ’سائبر جرائم ایک عوامی مسئلہ‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ اس ضمن میں حکومت کو سخت ترین سائبر قوانین بنانا ہوں گے تاکہ ہماری خواتین اور دیگر متاثرین انٹرنیٹ کی بلیک میلنگ سے نجات حاصل کر سکیں۔ دنیا کی ہر ایجاد کے جہاں مثبت پہلو ہوتے ہیں وہیں منفی پہلو بھی ہوتے ہیں اور یہ ہم انسانوں پر منحصر ہے کہ اُس ایجاد کے مثبت پہلوئوں سے ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بناتے ہیں یا منفی پہلوئوں سے دوسروں کی زندگی اجیرن کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے جہاں انسان کی زندگی کو انتہائی تیز اور سہل بنا دیا ہے وہیں منفی ذہنیت کے حامل افراد اِس نعمت کو دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے کے لیے بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ ایسے افراد لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشت گردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات، ای میلز، ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی حاصل کرکے سائبر کرائمز کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک اور پیغام رسانی کی ایپ واٹس ایپ کے ذریعے بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیک کرنے جیسے سائبر کرائمز کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل سیکورٹی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اِس ضمن میں پہلے مرحلے میں موبائل فون اور کمپیوٹر کو منفی طور پر استعمال کرنے والے افراد کی اصلاح اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ضرورت ہے کہ وہ کس قدر سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ 2016میں پہلا قانون بناکر سائبر کرائمز کے تدارک کیلئے جو قدم اٹھایا گیا تھا اُسے تیز کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی لازم ہے۔

تازہ ترین