پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں گزشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان مخالف کالعدم طالبان تنظیموں کے خلاف ٹارگیٹڈ کارروائیوں میں چالیس سے زیادہ اہم کمانڈر اور جنگجو مارے گئے ہیں۔ شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کے بعد پاکستان سے فرار ہونے والے جنگجو اتنی بڑی تعداد میں سرحد پار نشانہ بنائے گئے۔ اس سے پہلے امریکی ڈرون حملوں میں وقتاً فوقتاً پاکستانی طالبان قیادت یا جنگجوؤں کی ہلاکت کی خبریں آتی رہی ہیں مگر اتنے بڑے پیمانے پر نہیں۔
بعض مبصرین ان کارروائیوں کو افغانستان میں قیامِ امن کیلئے جاری کوششوں سے جوڑ رہے ہیں۔ تقریباً دو ہفتے قبل تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سب سے اہم شورٰی کے رکن اور سابق نائب امیر شیخ خالد حقانی اپنے اہم ساتھی کمانڈر قاری سیف پشاوری سمیت کابل کے قریب ایک کارروائی میں ہلاک ہوئے۔ شیخ خالد حقانی تحریک میں ’روحانی استاد‘ کہلاتے تھے اور ٹی ٹی پی کے سب سے اعلیٰ رہنما سمجھے جاتے تھے۔
اس واقعہ کے چند دن بعد پاکستان کی سرحد سے متصل افغان صوبہ ننگرہار میں ٹی ٹی پی کے ایک دھڑے حزب الحرار کے ٹھکانوں پر اچانک بمباری کی گئی جس میں 19کے قریب جنگجو ہلاک ہوئے جن میں چھ اہم ترین کمانڈر بھی شامل تھے۔ تنظیم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس نے کبھی بھی افغان سرزمین پر کوئی کارروائی نہیں کی، پھر بھی ان کے ٹھکانے کو نشانہ بنانا ان کی سمجھ سے بالا ہے۔ ان واقعات پر ابھی تبصرے جاری تھے کہ صوبہ کونڑ میں تحریک طالبان پاکستان کے محسود جنگجوؤں کے ایک دھڑے کے سربراہ شہریار محسود ایک بم دھماکے میں مارے گئے۔ شہریار محسود گروپ کا ماضی میں دیگر دھڑوں سے اختلاف ضرور رہا ہے اور اس دوران ایک دوسرے پر حملے اور ہلاکتیں بھی ہوئیں؛ تاہم حالیہ دنوں میں ان دھڑوں کے تمام باہمی اختلافات ختم ہو گئے تھے اور محسود جنگجوؤں کا دھڑا بہت جلد تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہونے والا تھا۔ اس سلسلے میں آج کل میں ایک باضابطہ اعلان بھی متوقع تھا۔ اس کے علاوہ صوبہ کونڑ میں سرگرم دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر دو امریکی ڈرون حملے کئے گئے جس میں 24کے قریب شدت پسند ہلاک ہوئے۔ اس حملے میں دولتِ اسلامیہ کے دو مرکزی رہنما بھی ہلاک ہوئے جن میں ان کی ’شرعی عدالت‘ کے ایک قاضی بھی شامل تھے۔
اگرچہ ابھی تک افغان حکومت کی طرف سے ان واقعات پر کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے تاہم بیشتر شدت پسند تنظیموں کو شک ہے کہ یکے بعد دیگرے ہونے والے یہ واقعات امریکہ اور ان کے ’غلام‘ اتحادیوں کی ایما پر کیے گئے ہیں۔ نشانہ بننے والے طالبان دھڑے عام طور پر پاکستان مخالف اور افغان حکومت کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ واقعات ایسے وقت میں رونما ہو رہے ہیں جب امریکہ اور افغان طالبان کے مابین کئی مہینوں سے جاری مذاکراتی عمل میں پہلی بار مثبت اشارے ملے ہیں۔ اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ امریکہ اور طالبان نے قلیل مدت کی جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے اور اس ماہ کے آخر تک فریقین کے مابین ایک امن معاہدہ بھی متوقع ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا افغان سرزمین پر پاکستان مخالف تنظیموں کے خلاف کارروائیاں محض اتفاق ہیں یا یہ سب کچھ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے؟
جب سے پاکستانی کالعدم تنظیموں نے افغان سرزمین پر پناہ لی ہے اس وقت سے پاکستان مسلسل افغان حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتا آ رہا ہے۔ اس دوران سرحد کے اِس پار بعض ایسے بڑے حملے بھی ہوئے جس کی منصوبہ بندی افغان سرزمین سے ہوئی، ان میں آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی کے واقعات قابلِ ذکر ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مسلسل کشیدگی اور بد اعتمادی کے باعث بیشتر اوقات یہ تمام معاملات تناؤ کی نذر ہوتے رہے ہیں تاہم اب افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال اور حالیہ واقعات سے لگتا ہے کہ دونوں جانب اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور تعاون بھی بڑھا ہے، جس کے کچھ اثرات نظر آئے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ امریکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی طرف سے افغانستان میں قیامِ امن کیلئے جاری کوششوں اور کردار سے مطمئن نظر آتا ہے اور اسی لیے اس کے مطالبات پر کام بھی ہو رہا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ موجودہ مذاکراتی سلسلہ بھی پاکستان کی کوششوں سے ہی شروع ہوا۔ اس کا اعتراف وزیراعظم پاکستان عمران خان اور امریکی انتظامیہ بھی بار بار کرتی رہی ہے۔ اگر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ خطے میں امن کی بحالی کی ایک بہت بڑی پیشرفت ہو سکتی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر اہم مرحلہ افغان حکومت اور طالبان کو ایک میز پر بٹھانا سمجھا جاتا ہے جس کیلئے پاکستان کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
طالبان اب تک افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ افغان مسئلے کے تین اہم فریق، امریکہ، پاکستان اور افغانستان آج کل ’کچھ لو، کچھ دو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ مثبت اشارے سامنے آئے ہیں۔ تاہم بظاہر لگتا ہے کہ اس پوری صورتحال میں کالعدم تنظیموں کی مشکلات بڑھیں گی۔ حالیہ واقعات کے تناظر میں بعض تنظیموں نے گفتگو کے دوران ان خدشات کا اظہار کیا بھی ہے۔
اگر امن کے عمل کو دوام ملتا ہے تو پھر شدت پسندوں کے پاس بظاہر کچھ زیادہ آپشن نہیں بچتے تاہم ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ افغان طالبان کے اندر بھی بعض ایسے دھڑے موجود ہیں جو امن کی کوششوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ سے اپنے زیادہ سے زیادہ مطالبات منوائے جائیں اور خود کم سے کم مانیں، تاہم ان قوتوں کو تحریک میں کچھ زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے۔