• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: رؤف ظفر، لاہور

اُردو کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے اور بیش تر ممالک میں اسے سمجھنے والے موجود ہیں۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر برّصغیر پاک وہند اُردو کا پہلا وطن ہے، تو تُرکی اس کا دوسرا وطن کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ اس پس منظر میں تُرکی میں بابائے اُردو کے لقب سے پہچانے جانے والے، 25کُتب کے مصنّف، محقّق، نقّاد، افسانہ نگار، پروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف کا یہ دعویٰ قابلِ فہم ہے کہ تُرکی میں اُردو پر جتنا کام ہوا ہے، پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ 

85سالہ ڈاکٹر احمد بختیار اشرف(تمغۂ امتیاز کے حامل) گزشتہ 30برس سے تُرکی میں اُردو کی تدریس و ترویج میں مصروف ہیں۔ اُنہوں نے علمی و ادبی محاذ پر جو کام کیا، اُس نے تُرکی اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات اور علمی و ادبی رشتے محفوظ تر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر احمد بختیار پاکستان آئے، تو اُن سے اس حوالے سے خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال قارئین کی نذر ہے ۔

س: پاکستان سے تُرکی تک کے سفر میں کون کون سے مراحل طے کرنے پڑے؟

ج: مَیں نے 15فروری 1935ء میں ملتان کے ایک بلوچ خاندان میں جنم لیا۔ والد ایک ہندو جاگیردار کے ہاں ملازم تھے۔ مَیں نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی، جہاں جاگیردار کے کتّوں کے لیے بیف پکتا، لیکن ملازمین کو دال بھی مشکل سے دست یاب تھی۔ ہندو نواب کے بچّوں کے استاد کو 50روپے ماہانہ اور کتّوں کی رکھوالی کرنے والے کو 100روپے ملتے۔ میٹرک کیا، تو ترقّی پسند ناول نگاروں میکسم گورکی، ٹالسٹائی اور پشکن کے تراجم ہاتھ لگ گئے، جو میرے فہم وشعور کے لیے ایک مہمیز ثابت ہوئے۔ والد نے مزید پڑھانے کی بجائے 17برس کی عُمر میں کلرک بھرتی کروادیا۔ دو برس بعد شادی ہوگئی اور دو بچّوں کا باپ بھی بن گیا۔ 

اس موقعے پر بیگم نے مجھے آگے پڑھنے کی ترغیب دی، تو معروف شاعر، عاصی کرنالی کے قائم کردہ مدرسے شرقیہ میں داخلہ لے لیا۔ یوں فاضل فارسی کا طالبِ علم بن گیا۔ مزید تعلیم کا شوق مجھے لاہور لے آیا اور اورینٹل کالج میں داخلہ ہوگیا۔یہ 1961ء کا زمانہ تھا، جب اُردو میں ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر وحید قریشی اور پروفیسر خواجہ سعید جیسے اساتذہ کی ایک کہکشاں جگ مگا رہی تھی۔1963ء میں اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو کے بعد پی ایچ ڈی کی اور پھر اُردو کی تدریس کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 

پاکستان میں یہ سلسلہ 1963ء سے 1988ء تک رہا۔ اُسی سال مجھے انقرہ یونی ورسٹی، تُرکی میں پاکستانی اسٹڈیز چیئر کے صدر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا اور یہی میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ جب تُرکی پہنچا اور اُردو کی تدریس شروع کی، تو اندازہ نہیں تھا کہ یہیں کا ہو کر رہ جائوں گا اور اُردو کے پودے کو اپنی آنکھوں سے شجر بنتے دیکھوں گا۔ 

1988ء سے1995 ء تک انقرہ یونی ورسٹی میں اُردو چیئر کا صدر رہا۔ یہ اس عُہدے کے لیے طے شدہ مدّت تھی، لیکن 1995ء میں انقرہ یونی ورسٹی ہی میں پروفیسر اُردو لینگویج اینڈ لٹریچر مقرّر کیا گیا اور 2003ء تک یہ فرائض انجام دیتا رہا۔ اگرچہ اب سرکاری عُہدوں سے ریٹائر ہو چُکا ہوں، لیکن پیرانہ سالی کے باوجود آج بھی وزیٹنگ پروفیسر اور اُردو ٹیچر کی حیثیت سے اُردو کے قدردان تُرکوں کو اُردو سِکھا رہا ہوں۔

س:پاکستانیوں اور تُرکوں کے درمیان ایک خاص طرز کی برادرانہ یگانگت اور محبّت پائی جاتی ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟

ج:ایک بڑی اور بنیادی وجہ تو ملّتِ اسلامیہ کا رشتہ ہے، لیکن دوسرا اہم سبب جینیٹکس بھی ہے۔ تُرک پہلے خانہ بدوش تھے اور وسط ایشیا کے اُس علاقے سے تعلق رکھتے تھے، جسے تُرکستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس خانہ بدوش جنگ جُو قوم نے ایک زمانے میں وسیع سلطنت قائم کرلی۔ سبکتگین، اپتگین اور محمود غزنوی تُرک ہی تھے، جنہوں نے غزنی اور شمالی ہندوستان میں مسلم حکومتوں کا سنگِ بنیاد رکھا۔13ویں صدی عیسوی کے وسط میں ایک تُرک سپہ سالار کے بیٹے، عثمان نے اپنے باپ کی سلطنت کو وسعت دے کر ایک عظیم سلنطت کی بنیاد رکھی، جو بعد میں’’ سلطنتِ عثمانیہ‘‘ کہلائی،لیکن رفتہ رفتہ زوال پذیر ہو کر پہلی جنگِ عظیم میں ختم ہوگئی۔ 

تاہم، جب تک یہ سلطنت رہی، عالمِ اسلام، بالخصوص برّصغیر پاک وہند کے باشندوں کے لیے عقیدت اور محبّت کا مرکز رہی۔ تحریکِ خلافت کے دَوران مسلمانوں نے جان ومال کی صورت تُرکی کے لیے جو قربانیاں دیں، تاریخ اُنہیں کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ تُرک قوم برّصغیر کے مسلمانوں کی اُن قربانیوں کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے تُرکی کا سفرنامہ تحریر کیا، وہ کچھ عرصہ استنبول میں رہے ، تُرکی زبان سیکھی اور بغداد میں تُرک زبان کی تدریس کی۔ 

تُرکی کے قومی شاعر، محمّد عاکف، علّامہ اقبال کے نہ صرف ہم عصر، بلکہ اُن کے ہم خیال بھی تھے۔اُنہوں نے اقبال کی فارسی شاعری کے توسّط سے کلامِ اقبال کو تُرکی میں متعارف کروایا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران دو بھائیوں، عبدالستار خیری اور عبدالجبار خیری نے، جو اُردو کے عظیم ناول نگار، مولوی نذیر احمد کے بھتیجے تھے، استنبول کا سفر کیا اور وہاں سے ایک اُردو ہفتہ روزہ’’اخوّت‘‘ جاری کیا۔ اس کے 98شمارے 1915ء سے 1917ء کے درمیان شایع ہوئے، لیکن یہ تو تُرکی اور برّصغیر کے مسلمانوں کے درمیان علمی اور فکری رابطے تھے۔ 

جہاں تک نسلی اور خونی رشتوں کا تعلق ہے، تو تُرکوں نے جب برّصغیر میں اپنی حکومتوں کی بنیاد رکھی، تو اُن کے ہم راہ ہزاروں کی تعداد میں فوجی بھی آئے، جن میں سے بیش تر نے برّصغیر ہی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا اور مقامی لوگوں سے شادیاں کرکے یہیں رَچ بس گئے۔ ماہرین دونوں مُلکوں کے درمیان اخوّت اور بھائی چارے کے غیر مرئی رشتوں کو اسی جینیٹکس کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔ آج بھی اگر کسی ماہرِ بشریات سے لاہور کے کسی کونے میں رہنے والے شخص کے آبائو اجداد کا نسلی سلسلہ پوچھیں، تو عین ممکن ہے، وہ اس کا شجرہ تُرکی، آذر بائیجان یا افغانستان کے کسی گم نام قبیلے سے جوڑ دے۔ بہرحال تُرکوں اور پاکستانیوں کے درمیان محبّت اور یگانگت کا ایک ایسا رشتہ ہے، جو زمانے اور سیاست کے نشیب و فراز سے ماورا ہے۔

س: تُرکی میں اُردو کی تدریس کا باقاعدہ آغاز کب ہوا؟

ج: تُرکی اور برّصغیر کے مسلمانوں کے درمیان آمد و رفت کا سلسلہ تو صدیوں سے جاری ہے، تاہم جہاں تک اُردو زبان کا تعلق ہے، تو اُردو کا لفظ ہی تُرک زبان سے نکلا ہے۔ تُرکی میں اُردو کی تدریس کا آغاز 1915ء میں ہوا، جب استنبول یونی ورسٹی میں اُردو کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ یہ شعبہ اب تک خوش اسلوبی سے سرگرمِ عمل ہے۔ استنبول یونی ورسٹی کے بعد 1956ء میں انقرہ یونی ورسٹی میں اُردو کی تدریس کا آغاز ہوا۔ اُسی سال حکومتِ پاکستان نے انقرہ یونی ورسٹی میں’’اُردو چیئر‘‘ قائم کی، جس کے چیئرمین پاکستان سے مقرّر کیے جاتے ہیں۔

اِس وقت استنبول، انقرہ اور قونیہ کی یونی ورسٹیز میں اُردو کی تدریس اور تحقیق کا کام ہو رہا ہے ۔ میرا دعویٰ ہے کہ اُردو کے حوالے سے تُرکی کی ان یونی ورسٹیز میں جتنا تحقیقی و تدریسی کام ہوا، دنیا کی کسی اور یونی ورسٹی میں نہیں ہوا۔ تُرک باشندے ویسے بھی پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور وہ اُردو اپنے شوق سے سیکھتے ہیں، تاہم علّامہ اقبال کے کلام نے اُن کے اِس شوق کو مزید بڑھاوا دیا۔ وہاں اُردو سیکھنے والے طلبہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کئی شہروں میں تُرک اور پاکستانی طلبہ نے انجمنیں بنا رکھی ہیں، جن کی تقریبات اُردو اور تُرکی، دونوں زبانوں میں ہوتی ہیں۔نیز، تُرکی میں تعیّنات پاکستانی سفیروں نے بھی اس معاملے میں ہر طرح سے تعاون کیا۔

تُرکی، اُردو کا دوسرا وطن ہے
ڈاکٹر اے بی اشرف انقرہ یونی ورسٹی میں ڈکشنری کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر

س: آپ کو تُرکی میں ’’بابائے اُردو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا کیا سبب ہے؟

ج: دیکھیں جی اپنی تعریف کرنا اچھا تو نہیں لگتا، لیکن ریکارڈ کے طور پر کچھ بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ بہائو الدّین زکریا یونی ورسٹی میں اُردو کا پروفیسر تھا، جب 1988ء میں انقرہ میں اُردو چیئر کے لیے بطور چیئرمین تعیّناتی ہوئی۔ یہ تعیّناتی 5سال کے لیے ہوتی ہے، لیکن شاید میری کارکردگی پسند آ گئی، لہٰذا مَیں 7سال تک تعیّنات رہا۔ اسی دَوران بہائو الدّین زکریا یونی ورسٹی سے بھی ریٹائر ہو گیا، لیکن تُرک دانش وَر اور اُردو کے پروفیسر، ڈاکٹر شوکت بولو (مرحوم) نے انقرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو کے لیے میری خدمات حاصل کر لیں، جہاں 8سال تک پڑھاتا رہا۔ اب بھی 85سال کی عُمر میں انقرہ یونی ورسٹی میں اُردو کا وزیٹنگ پروفیسر ہوں اور پاکستان ایمبیسی انٹرنیشنل اسٹڈی گروپ میں اُردو اور اخلاقیات پڑھاتا ہوں۔ 

جب انقرہ یونی ورسٹی سے وابستہ ہوا، تو وہاں اُردو کی واجبی تعلیم دی جاتی تھی۔ مَیں نے دن رات کام کر کے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے نصاب مرتّب کیے۔ بعدازاں، کئی تُرک اسکالرز نے میری اور ڈاکٹر شوکت بولو کی زیرِ نگرانی ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کیے۔ یہ وہ دَور تھا، جب مَیں اور ڈاکٹر شوکت اساتذہ کی کمی کی وجہ سے صبح سے رات گئے تک درس و تدریس کا کام انجام دیتے۔ انقرہ یونی ورسٹی سے 15سالہ وابستگی کے دَوران 8ریسرچ اسکالرز نے پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ میرے کئی تُرک شاگرد تُرک یونی ورسٹیز میں اُردو کے شعبوں کے صدر رہے۔

س: تُرکی میں اُردو کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے کیا کام ہوا ہے؟

ج: تُرکی میں اُردو کے حوالے سے جو کام ہوا ، اُسے چند سطور میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ انقرہ یونی ورسٹی میں اُردو چیئر کے لیے مختلف ادوار میں جو دانش وَر حکومتِ پاکستان کی طرف سے مقرّر کیے جاتے رہے، اُن میں ڈاکٹر دائود رہبر، ڈاکٹر طاہر فاروقی، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹر میاں مشتاق جیسے نابغۂ روزگار شامل تھے۔ ان سب نے بہت کام کیا۔ 1985ء میں اُردو چیئر پر 5سال تک تعیّنات ہونے والے ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے تُرک اسکالر، زینب اوزان کے ساتھ مل کر’’تُرکی کے ذریعے اُردو سیکھیے‘‘ کے عنوان سے کتاب شایع کی۔ 

استنبول یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو کے سربراہ، ڈاکٹر خلیل طوقار نے کلامِ اقبال، خطوطِ اقبال کے تراجم اور تُرکی کی اُردو لغت مرتّب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اقبال کی شاعری کے انتخاب پر مشتمل کتاب 1999ء میں شائع ہوئی۔ 2001ء میں اقبال کی کتاب’’ Stray Reflections ‘‘کا تُرکی ترجمہ استنبول سے شایع ہوا۔ اُنہوں نے جاوید نامہ، خطوطِ اقبال کا ترجمہ بھی کیا۔ اقبال پر کُتب کو شمار کیا جائے، تو تعداد تین درجن سے زاید بنتی ہے۔ ڈاکٹر شوکت بولو نے اُردو سے تُرکی میں متعدّد تراجم کیے۔ 

مَیں نے بھی اس کارِ خیر میں حصّہ ڈالا اور’’غالب اور اقبال‘‘،’’ سفرنامہ تُرکی‘‘،’’ اُردو ڈرامہ اور آغا حشر‘‘ سمیت کئی کُتب تصنیف کیں۔ تُرک افسانوں کے ایک مجموعے’’ ایک عورت‘‘ کے ترجمے کا اہتمام کیا اور اس کا دیباچہ تحریر کیا، تاہم میرے نزدیک سب سے اہم کام’’اُردو تُرکی۔ تُرکی اُردو لغت‘‘ کی اشاعت ہے۔ اس سے قبل جو لغات مرتّب کی گئیں، وہ تُرکی، اُردو لغات تھیں۔ مَیں نے اب تک اُن پاکستانی اہلِ قلم کا ذکر کیا ہے، جنہوں نے تُرکی میں اُردو کو متعارف کروایا، لیکن تُرکی اور پاکستان کی محبّت یک طرفہ نہیں۔ تُرکی کے دانش وَر اور اہلِ علم و دانش پاکستان آ کر علمی و ادبی رشتے مستحکم کرتے رہےہیں۔ 

ان دانش وَروں میں پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان نمایاں ہیں۔ ان کا ایک اہم کام’’اُردو تُرکی۔ تُرکی اردو لغت‘‘ مرتّب کرنے میں میری معاونت کرنا ہے۔ ڈاکٹر جلال نے اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو اور انقرہ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ اُن کے مقالے کا عنوان’’تُرکی میں مطالعۂ اقبال‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ، اقبال اور غالب کے جملہ اُردو کلام کا تُرکی میں منظوم ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر آسمان بیلن اوزجان نے بھی اورینٹل کالج، لاہور سے اُردو زبان کا ڈپلوما کیا۔ بعد میں انقرہ یونی ورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ اُن کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ’’پروین شاکر کی زندگی اور شاعری‘‘ تھا۔ آج کل وہ انقرہ یونی ورسٹی شعبۂ اُردو کی چیئرپرسن ہیں۔ 

کئی اور تُرک دانش وَروں نے بھی اورینٹل کالج سے اُردو کی تعلیم حاصل کر کے تُرکی میں اُردو کے قدر دانوں کی پیاس بُجھائی۔ قونیہ کی سلجوق یونی ورسٹی بھی اُردو کے فروغ میں پیچھے نہیں رہی۔ یہاں ڈاکٹر ایرکن ترکمان کی مساعی سے شعبۂ اُردو قائم ہوا۔ وہ تُرکی میں اُردو زبان کے پہلے اور اب تک واحد پروفیسر ہیں۔ ’’اُردو ادب میں شاعری کا ارتقاء‘‘ اُن کی ایک اہم کتاب ہے۔ مولانا رومی پر اُن کی ایک کتاب کو تو عالمی شہرت بھی حاصل ہوئی۔ 

اُنہوں نے تُرکی زبان میں اُردو گرائمر پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ تُرکی میں اُردو زبان کو فروغ دینے والے دیگر تُرک اہلِ علم میں ڈاکٹر خاقان قیوم جو اور ڈاکٹر درمش بلغورے شامل ہیں۔ ڈاکٹر درمش نے انقرہ یونی ورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا۔ وہ آج کل پنجاب یونی ورسٹی، لاہور میں رومی چیئر پر تعیّنات ہیں۔ غرض استنبول، انقرہ اور قونیہ یونی ورسٹیز میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سطح پر جو مقالات تحریر کیے گئے، اُن سے تُرکی میں اُردو کے فروغ میں بڑی مدد ملی۔

س: آپ کی گفتگو سے تاثر ملتا ہے کہ تُرکی میں علّامہ اقبال پر بہت کام ہوا ہے؟ 

ج: جی ہاں، ایسا ہی ہے۔ کلامِ اقبال نے تُرکوں اور پاکستانیوں کے تعلقات مضبوط بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ تُرکی میں پاکستان کے پہلے سفیر، میاں بشیر احمد، اقبال کے شیدائی تھے۔ وہ رسالہ ’’ہمایوں‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ اُنہوں نے پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے ایک جریدہ’’پاکستانی پوستسی‘‘ شایع کیا، جس میں تُرکی اور اُردو، دونوں زبانوں میں مضامین شائع ہوتے تھے۔اس جریدے کا اہم موضوع اقبال اور رومی تھا۔ سفارت خانے کے تحت ایک تنظیم’’ تُرکیہ پاکستان ثقافتی انجمن‘‘ بنائی گئی، جس کے تحت باقاعدگی سے یومِ اقبال منایا جانے لگا۔ تُرکوں کی اقبال سے گہری وابستگی تھی اور اب بھی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں تُرک قوم کی شجاعت اور بہادری کی تعریف کی۔

س: اقبال تُرکی میں کیسے متعارف ہوئے؟

ج: اقبال کو تُرکی اور عرب دنیا میں متعارف کروانے کا کریڈٹ تُرکی کے قومی شاعر، محمّد عاکف ارصوائے کو جاتا ہے، جو تُرکی کے دورِ انقلاب کے شاعر اور علّامہ اقبال کے معاصر تھے۔ تُرکی کا قومی ترانہ بھی اُنہی کی تخلیق ہے۔ اقبال اور عاکف کے خیالات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ محمّد عاکف نے اپنے مجموعہ’’صفحات‘‘ کو، جو سات کُتب پر مشتمل ہے، اقبال کی نذر کر کے خراجِ تحسین پیش کیا۔ اقبال کے کلام میں بھی عاکف کا ذکر ملتا ہے۔ شروع میں اقبال کی فارسی شاعری ہی کا تُرکی میں تعارف ہوا۔ بعدازاں،اقبال پر اتنا کام ہوا کہ اس کا کوئی عام شخص اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔ 

کلامِ اقبال، تصانیفِ اقبال اور خطباتِ اقبال کے تراجم تُرک زبان میں کیے گئے۔ ڈاکٹر این میری شمل انقرہ یونی ورسٹی کے شعبہ’’الٰہیات‘‘ سے وابستہ تھیں اور تُرکی زبان پر عبور رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے جاوید نامہ کا ترجمہ 1958ء میں کیا۔ 1962ء میں جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ حسین پرویز خاتمی نے کیا۔ ڈاکٹر علی نہار نے پیامِ مشرق کا ترجمہ کیا، جو 1963ء میں انقرہ سے شائع ہوا۔ بعدازاں اسرار ِخودی کا ترجمہ کیا۔ اسی طرح، علّامہ اقبال کی دوسری کُتب پس چہ باید کرد، اقوامِ مشرق اور بندگی نامہ کے تراجم کیے گئے۔ زبورِ عجم، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز کے مختلف حصّوں کے تراجم بھی کیے گئے۔

حکومتِ پاکستان نے این میری شمل کو ان کی خدمات پر’’ نشانِ پاکستان‘‘ کا اعزاز بھی دیا۔ انقرہ یونی ورسٹی کے صدر شعبۂ اُردو، جلال صوئیدان کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ بھی علّامہ اقبال پر تھا، جو اُنہوں نے 1999ء میں تحریر کیا۔ پاکستان میں اُنہوں نے اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اردو کیا، تو ان کے مقالے کا عنوان ’’تُرکی میں مطالعۂ اقبال‘‘ تھا۔ اقبال تُرکوں کے محبوب شاعر ہیں اور اسی حوالے سے پاکستانیوں سے بھی محبّت کرتے ہیں۔

س: پاکستان اور تُرکی کے درمیان علمی و ادبی تعلقات کے فروغ کے لیے مزید کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

ج: اگرچہ تُرکی میں اُردو کے حوالے سے کافی کام ہو چُکا، لیکن اسے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سلسلہ دونوں طرف سے ہونا چاہیے۔ اگر گزشتہ 30برس کے دَوران تُرکی میں اُردو پر کی گئی کاوشوں، تخلیقات، تراجم، تنقید، تحقیق کو یک جا کیا جائے، تو تہذیب و ثقافت کا بہت بڑا سرمایہ مستقبل کے ریسرچ اسکالرز کے کام آ سکتا ہے۔ 

مسلمان سائنس دانوں، ریاضی دانوں اور دیگر ماہرین نے اندلس میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے، اُن کا علمی ذخیرہ یورپی کُتب خانوں کے علاوہ تُرکی میں بھی موجود ہے۔ اب اُن کا عربی سے تُرکی زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ اگر اُنہیں اُردو میں بھی منتقل کیا جائے، تو یہ ہمارے علمی سرمائے میں ایک بیش بہا اضافہ ہو گا۔

تازہ ترین