• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحی نعیم، کراچی

ہمارے شہروں کے بڑھتے ہوئے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ، ٹریفک کا بے پناہ دباؤ بھی ہے۔ شہرِقائد ہی کی مثال لےلیں ،تو کسی زمانے میں یہ شہر وسیع و کشادہ، صاف ستھری سڑکوں کا حامل تھا،مگرآج آئے دن بد ترین ٹریفک جام ہی کا شکار رہتا ہے۔اس کی ہر سڑک، شاہ راہ بڑی، چھوٹی گاڑیوں، بسوں ، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے ہجوم میں گِھری دکھائی دیتی ہے۔ ویسے تو شہرِ کراچی میں ٹریفک کے مسائل نئے نہیں، لیکن کچھ عرصہ قبل تک صرف دفتراور اسکول، کالج کے اوقات ہی میں زیادہ ٹریفک جام ہوتا تھا، لیکن وقت گزرنے اور آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے مسائل میں شدید اضافہ ہوگیا ہے۔ اور اب تو حال یہ ہے کہ ورکنگ ڈے ہو یا ہالی ڈے ،ٹریفک جوں کا توں ملتا ہے اورشہر کی سڑکیں صبح سے رات گئے تک ٹریفک کے دباؤ کا شکار رہتی ہیں ۔

حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اوَور ہیڈ برجز، انڈر پاسز وغیرہ بننے کے با وجود اس مسئلے سے چھٹکارانہیں مل پا رہا۔ مڈل کلاس اور پس ماندہ طبقے کے لیے پہلے بسز، منی بسز، رکشوںوغیرہ کے ساتھ چنگ چی رکشے چلائے گئے اور اب غیر مُلکی نجی اداروں نے شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے سروسز دینا شروع کر دی ہیں۔یہ گاڑیاں، مناسب کرائے میں،با آسانی منزلِ مقصود پر پہنچا دیتی ہیں۔گر چہ اس سروس سے شہریوں کو بہت سہولت حاصل ہو گئی ہے، لیکن معاملےکا دوسرا رُخ یہ کہ ان کی وجہ سے ٹریفک میں بھی مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

شہر کے خواہ کسی بھی حصّے، علاقے میں جانا ہو آدھے گھنٹے کی مسافت ایک گھنٹے میں طے ہوتی ہے۔ گوکہ ہم سب ہی روز مرّہ کے ٹریفک جام سے تنگ ہیں، لیکن کبھی کوئی اس مسئلےکے تدارک کا نہیں سوچتا۔صدقِ دل سے سوچیںکیا ہم نےکبھی بڑھتے ہوئے ٹریفک کی وجوہ جاننے کی کوشش کی ؟حکومت اور قوانین کی خرابیاں ہم فوراً گِنوانے لگتے ہیں، لیکن کبھی اپنے طرزِ عمل پر بھی تو غور کریں… ہم اپنے بچّوں کو بڑےاسکولز ،کالجز میں داخل کروانا چاہتے ہیں، پھر خواہ وہ تعلیمی ادارہ گھر سے مِیلوں دُور ہی کیوں نہ ہو۔اسی سبب اسکول کے اوقات سے قریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی وین دروازے پر کھڑی ہارن دے رہی ہوتی ہے، جب کہ سردیوں میں تو منہ اندھیرے ہی گلی گلی سے ہارن سنائی دینے لگتے ہیں۔کیا بچّے کوگھر کے قریب اسکول میں داخل کروانے سے ہم اور ہمارے بچّے ان پریشانیوں سے نہیں بچ سکتے؟

ٹریفک میں اضافے کی دوسری اہم وجہ گھر وںسے باہر کھانے کا شوق اوررواج بھی ہے، جو اب ہمارے معاشرے کی روایت بن چُکا ہے۔ پہلے پہل مہینے میں ایک دو بار ہوٹلنگ کی جاتی تھی، پر اب تو ایسا لگتا ہے کہ جب تک ہفتے میں ایک ،دو بارباہر کھانا کھانے نہیں جائیں گےاور اس کھانے کی تصاویراور اسٹیٹس سوشل میڈیا پراَپ ڈیٹ نہیں کریں گے، تب تک زندگی کامقصد ادھورارہے گا اور ہوٹلنگ کے لیے بھی گھر سے قریب کسی جگہ کا انتخاب نہیں کیا جاتا، بلکہ کسی دُور دراز علاقے ہی کا انتخاب کیا جاتا ہے، جہاں پہنچنے کے لیے وقت ، پیٹرول کے ساتھ خاصاپیسا بھی ضایع ہوتا ہے۔جب آئے دن لوگ بے وجہ، صرف تفریح کی غرض سے باہر گھومنے، پھرنے نکلیں گے، تو یہ مسائل تو پیدا ہوں گے۔ 

آج کل ہر کوئی ہی منہگائی اور اشیا کی بڑھتی قیمتوں کا رونا روتا نظر آتا ہے، لیکن ساتھ ہی لوگ مادّہ پرستی سے بھی بازنہیں آرہے۔ اگرہم صرف یہی تہیّہ کرلیں کہ آئندہ بلا ضرورت گھر وں سے باہر نہیں نکلیں گے۔آئے روز کی ہوٹلنگ کے بجائے زیادہ سے زیادہ مہینے میں ایک بار سیر و تفریح کے لیے جائیں گے، تو یقین کریں، صرف ٹریفک جام ہی کا مسئلہ نہیں، اور بھی کئی مسائل آپ ہی آپ حل ہو جائیں گے۔

تازہ ترین