• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کے تیز رفتار سفر میں بعض اوقات مہ و سال یاد نہیں رہتے لیکن واقعات ذہن پہ نقوش مرتب کر جاتے ہیں۔ میں طالب علم تھا۔ اخبار میں ایک خبر نظر سے گزری کہ کل یومِ اقبال کے سلسلے میں ایک تقریب منعقد ہوگی۔ جس کی صدارت علامہ اقبالؒ کے خدمت گار میاں علی بخش کریں گے۔ اقبال سے عقیدت اور کلامِ اقبال کو سمجھنے کی آرزو اسکول کے آخری دور میں ہی ذہن پہ چھا گئی تھی اور یہ میرے استاد کی دین تھی۔ چنانچہ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد تین ماہ کی چھٹیاں میں نے علامہ اقبال کی سوانح پر لکھی گئی کتابیں اور ایک آدھ فلسفہ پر لکھی گئی کتاب پڑھنے میں گزاریں۔ علی بخش کا علامہ اقبال کے ساتھ وفا اور خدمت کا تعلق تقریباً ساڑھے تین دہائیوں پر محیط تھا اس لئے میرے دل کے ایک گوشے میں علی بخش سے بھی عقیدت کا عکس موجود تھا۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ علی بخش ناخواندہ تھا، اُس نے علامہ کی زندگی کے آخری سانس تک اُن کی خدمت کی۔ علامہ اقبال پر لکھی گئی کوئی کتاب علی بخش کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

ذکر ہو رہا تھا یومِ اقبال کا جس میں نامور اسکالرز اور عالم و فاضل مصنفین علامہ اقبال پر مقالے پیش کر رہے تھے، اسٹیج پر نامور ہستیاں تشریف فرما تھیں اور صدارت کر رہا تھا علامہ اقبال کا ناخواندہ گھریلو ملازم علی بخش، واہ سبحان اللہ۔ میں یہ خبر پڑھ کر غور و فکر کے سمندر میں ڈوب گیا اور سوچنے لگا کہ بعض شخصیات ’’پارس‘‘ کی مانند ہوتی ہیں جنہیں لوہا بھی چھو لے تو وہ سونا بن جاتا ہے اور بعض شخصیات ناموری، شہرت، دولت اور اعلیٰ ترین عہدوں پر متمکن ہونے کے باوجود اُس گدلے تالاب کی مانند ہوتی ہیں جن کے کنارے بیٹھنے والے اپنے دامن پر کچھ داغ لگا کر ہی لوٹتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کچھ ایسے ’’بڑے‘‘ لوگ بھی دیکھے ہیں جن سے تعلق بدنامی اور اکثر اوقات زندگی بھر کی شرمندگی بن جاتا ہے۔ میں نے زندگی کے سفر میں نہایت ایماندار اور حد درجے کے بےفیض لوگ بھی دیکھے جو اپنی ایمانداری اور ’’بےفیضی‘‘ پر اتراتے اور فخر کرتے تھے اور ایسے ایماندار صاحبانِ اقتدار بھی دیکھے جن کے فیض کے دروازے کھلے رہتے تھے۔ غلط نوازیاں ہمیشہ بدنامی کا باعث بنتی ہیں اور خدمت کے جذبے سے مدد کرنے والوں کو مخلوقِ خدا ہمیشہ اچھے لفظوں سے یاد کرتی ہے۔ علی بخش کا تعارف اور احترام صرف اور صرف علامہ اقبال کی خدمت کا فیض تھا۔ باخبر حضرات بتایا کرتے تھے کہ علامہ اقبال کے عقیدت مند جن میں دنیاوی حوالے سے بڑے بڑے لوگ شامل تھے، علی بخش سے ملنا سعادت سمجھتے تھے حالانکہ وہ ناخواندہ اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ذرا اردگرد نگاہ ڈالیے۔ آپ کو ایک بھی نیم خواندہ اور غریب شخص نظر نہیں آئے گا جسے کوئی پہچانتا اور قابلِ توجہ سمجھتا ہو کیونکہ دنیا میں جاننے، پہچاننے اور اہمیت دینے کے پیمانے دولت، عہدہ، اقتدار و اختیار، شہرت وغیرہ ہوتے ہیں۔

علی بخش کا خیال آیا تو ذہن تاریخ کی وادیوں میں گھومنے لگا۔ علامہ اقبال تو حکیم الامت، فلاسفر، شاعر اور راہنما تھے اور 1938میں انتقال پا گئے لیکن قائداعظم محمد علی جناح تو سر تا پا سیاست دان تھے اور زندگی کے آخری سال میں اقتدار کی گدی پر بھی متمکن رہے۔ درحقیقت اقتدار آزمائش ہوتا ہے۔ اقتدار صاحبِ اقتدار کو بہترین لباس کے باوجود ننگا کر دیتا ہے۔ حکمرانی کے دور میں حکمران کا ایک ایک فیصلہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کا اندازِ حکمرانی، قابلیت اور اندازِ زندگی، حکمران کی اصل شخصیت کو بےنقاب کر دیتا ہے۔

ہماری تاریخ میں قائداعظم وہ واحد ’’پارس‘‘ ہیں جن سے چھونے والا پتھر بھی سونا بن گیا، جن سے معمولی سے معمولی تعلق سعادت بن گیا اور جن سے ملاقات یا گفتگو عمر بھر کا اعزاز ٹھہری۔ میں اپنی محدود اور چھوٹی سی لائبریری پر نظر ڈالتا ہوں تو اُن کے ساتھ کام کرنے والے ہر اے ڈی سی کی لکھی ہوئی کتاب ملتی ہے، جو کتاب نہ لکھ سکے وہ مضامین چھوڑ گئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم کے ساتھ کام کرنے والے اے ڈی سی، پرائیویٹ سیکرٹری بیورو کریٹ، ڈاکٹر حتیٰ کہ خانسامے اور ڈرائیور تک زندگی کے آخری سانس تک محترم رہے اور اپنی اس شناخت پر فخر کرتے رہے۔ قائداعظم کے بعد یہ مقام قائدِ ملت لیاقت علی خان کو ملا لیکن اُن کا اخلاص، بےلوث خدمات، ایثار اور شفاف شخصیت قائداعظم جیسے برگد کے گھنے درخت کے نیچے ابھر نہ سکی لیکن یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ہمیشہ اپنے اس تعلق پہ نازاں رہے اور معاشرے میں قابلِ احترام تصور ہوتے رہے۔ تاریخ کو غور سے پڑھ کر دیکھ لیں کہ قائداعظم اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے قریبی حضرات پر نہ کبھی کوئی الزام لگا، نہ کسی احتسابی ادارے نے اُن سے سوال جواب کیا اور نہ ہی کبھی معاشرتی سطح پر اُن کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا گیا۔

علامہ اقبال ہوں یا قائداعظم یا اُن کے سچے جانشین، یہ گویا پارس تھے جنہیں چھونے والا لوہا بھی سونا بن گیا، سونا نہ بن سکا تو چاندی ضرور بن گیا۔ یہ ہمارے اخلاقی، سیاسی، معاشرتی اور شخصی کردار کے تنزل کی انتہا ہے کہ ہم نے سونے کو اقتدار کی قربت سے لوہا بنتے دیکھا، ہوس کا شکار ہو کر لوگوں کو بدنامیاں سمیٹتے دیکھا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمیں من حیث القوم کیا ہوا ہے؟ کیا ہماری قوم بانجھ ہو گئی ہے؟ کیا ہماری سیاسی کشت ویران ہو گئی ہے؟ وہ لوگ کہاں گئے جن سے چھونے والا لوہا بھی سونا بن جاتا تھا، جن سے تعلق عمر بھر کا افتخار اور اثاثہ بن جاتا تھا۔ آج ہم کس عہد میں رہ رہے ہیں؟ کردار کے تنزل کا یہ عمل کبھی رکے گا یا نہیں؟ یاد رکھیں خلافتِ راشدہ کے دور کی بات نہیں کر رہا، نہ ہی میں اُن مسلم بادشاہتوں کا ذکر کر رہا ہوں جن پر تاریخ اتراتی اور فخر کرتی ہے۔ میں اپنی اُس تاریخ کا ذکر کر رہا ہوں جو ہماری چشم دید ہے سوچئے ایسا کیوں ہے؟

تازہ ترین