عمر چیمہ
اسلام آباد :… سرکاری بنچوں کی جانب سے کچھ مخالفت کے بعد ججوں کی تقرری کے لئے پارلیمانی کمیٹی نے منگل کو بالآخر جسٹس محمد قاسم خان کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنانے کے لئے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش کی منظوری دے دی ہے۔
جسٹس سیّد مظہر علی نقوی جسٹس قاسم خان کی ترقی کے بعد سینئر ترین جج کی حیثیت سے سپریم کورٹ چلے جائیں گے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں خالی جگہ جسٹس نقوی پوری کریں گے۔ یہ اتفاق ہے کہ جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو 2010ء میں سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی تھی۔ جب اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اس وقت پیپلزپارٹی حکومت کی مخالفت کے باوجود جسٹس محمد شریف کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
اجلاس سے واقف ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ نے ابتدا میں نامزدگی کے خلاف مزاحمت کی۔ ان کا مؤقف تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کو اس معاملے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ تاہم کارروائی کے دوران اپوزیشن ارکان حاوی آ گئے جس کا نتیجہ جوڈیشیل کونسل کی طرف سے سفارش کی توثیق کی صورت نکلا۔
اجلاس میں حکومتی ارکان چاہتے تھے کہ جسٹس قاسم خان کو پہلے انٹرویو کے لئے طلب کیا جائے لیکن اپوزیشن نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ اس کا مؤقف تھا کہ یہ قدم نئے ججوں کی تقرری کے وقت اُٹھایا جاتا ہے۔ اوّل یہ مشق گزشتہ دسمبر میں ہوئی جب کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی خالی جگہوں پر جوڈیشیل کونسل کے سفارش کردہ تین ناموں کی منظوری دینا تھی۔ جو تمام کی تمام دے دی گئی۔
چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کی تقرری پر سرکاری ارکان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آئی ایس آئی نے ان کے بارے میں رپورٹ نہیں دی۔ اپوزیشن نے یہ اعتراض مسترد کر دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ رپورٹ نہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ جسٹس قاسم خان نااہل ہوگئے۔
اپوزیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایجنسی اس معاملے میں غور و خوض سے پہلے ہی آگاہ تھی۔ اگر کوئی اعتراض ہوتا تو وہ پہلے ہی نشاندہی کر دیتی۔ لہٰذا اعتراض کا نہ ہونا این او سی ہے۔ پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان جو ججوں کی تقرری پر کمیٹی کے سربراہ ہیں۔
انہوں نے نئے چیف جسٹس کے نام کی منظوری کی توثیق کی لیکن ابتدا میں کئے گئے اعتراض پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا چونکہ مذکورہ اجلاس خفیہ تھا، لہٰذا وہ کوئی رائے نہیں دے سکتے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک عدالتی حکم کے ذریعہ جوڈیشیل کمیشن کو ربر اسٹیمپ بنا دیا تھا کہ اگر پارلیمانی کمیٹی نے 14 دنوں میں سفارش کردہ ناموں پر غور نہ کیا تو وہ منظور شدہ تصور ہوں گے۔
ترمیمی قواعد کے تحت کمیٹی کو اختیار ہے کہ وہ سفارش کردہ امیدواروں کو انٹرویو کے لئے طلب کرے۔ پیش نہ ہونے کی صورت جج کی حیثیت سے ان کی تقرری منسوخ تصور ہوگی۔
جوڈیشیل کونسل کی منظور کردہ تقرریوں کو کمیٹی مسترد نہیں کر سکتی جب تک تین چوتھائی اکثریت سے ایسا نہ کیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 175 (12) کے مطابق ریکارڈڈ وجوہ بھی بیان کرنا ہوں گی۔
حتٰی کہ اس کیس میں جوڈیشیل کونسل کی جانب سے نئی نامزدگی میں وہی نام دوبارہ بھیجا جا سکتا ہے جس میں کمیٹی کی فراہم کردہ وجوہ بیان کی جائیں۔