پاکستان میں 28فیصد سے زائد آبادی کا خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے کا مطلب ساڑھ پانچ کروڑ سے زیادہ لوگوں کا دو وقت کی روٹی کی ضرورت پوری کرنے سے بھی محروم ہونا ہے۔ بلاشبہ اس طبقے کو بیکاری کا چلتا پھرتا نمونہ کہا جا سکتا ہے جو تشویشناک ہی نہیں نہایت نازک معاملہ ہے۔ گویا ملک کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی کسمپرسی کا شکار ہے جسے کام میں لاکر قومی آمدن کے دھارے میں لایا جانا چاہئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے منشور کے تحت متذکرہ طبقے کیلئے معاشی بحالی کا پروگرام تیار کیا ہے جس سے ان افراد کو آمدن کے حصول کیلئے بکریاں، گائے، بھینس، مرغیاں، زرعی آلات، رکشہ اور دوسری اشیا فراہم کی جائیں گی۔ وزیراعظم عمران خان جمعہ کو اس پروگرام کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں۔ اس سے فائدہ اٹھانے والے مستحق افراد اگر خلوصِ نیت سے کام لیں تو یقیناً وہ خطِ غربت سے باہر آسکتے ہیں۔ ماضی کی حکومتیں بھی مختلف پروگراموں کے تحت غریب افراد کو روزگار اسکیمیں دے چکی ہیں جو مناسب ہوم ورک نہ ہونے سے کامیاب نہ ہو سکیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے اس ضمن میں جو ہوم ورک کیا ہے اس کے تحت احساسِ آمدن پروگرام میں چاروں صوبوں کے 23غریب ترین اضلاع کی 375دیہی یونین کونسلوں کو شامل کیا گیا ہے۔ جس کے تحت مستحق افراد میں دو لاکھ اثاثہ جات تقسیم کیے جائیں گے جن میں خواتین ساٹھ اور نوجوانوں کی شرح 30فیصد ہو گی۔ پروگرام کا ابتدائی بجٹ 15ارب روپے ہے جس کا دائرہ نتائج کی بنیاد پر وسیع کیا جائے گا اور مجموعی طور پر ساڑھے 14لاکھ افراد اس سے مستفید ہوں گے۔ اگرچہ متذکرہ پیشوں میں قابلِ ذکر فنی مہارت کی ضرورت نہیں لیکن اسکیم کی کامیابی کیلئے ان لوگوں کا محنتی اور اپنے کام سے مخلص ہونا ضروری ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998