• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے جعلی ڈگری ہولڈرز، ٹیکس چوروں اورسیاسی بہروپیوں کو آئندہ الیکشن سے باہر کرنے کے اصول کی بات کیا کی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے کچھ پیادوں نے ہم پر حملے شروع کر دیے۔بجائے اس کے کہ صحت مند بحث مباحثہ کیا جائے کہ آخر الیکشن کمیشن سیاست میں موجود گندے انڈوں کو نکالنے میں کیوں دلچسپی نہ لے، ہم پر ذاتی حملے کئے جا رہے ہیں جیسا کہ جعلی ڈگری والوں ، ٹیکس چوروں اور دوسرے بددیانت سیاست دانوں کو پارلیمنٹ میں داخلے سے روکنے میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد ہے۔ گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن کے خلاف سیاسی پارٹیوں کے گٹھ جوڑ پر ایک ٹی وی پروگرام میں ن لیگ کے ایک رہنما نے مجھے رائے دینے پر ٹوک دیا اور کہا کہ ایک اخبار نویس کو یہ حق حاصل نہیں۔ میں نے اُن صاحب سے گزارش کی کہ اگر ابھی ن لیگ کا میڈیا کے متعلق یہ حال ہے تو الیکشن کے بعد کامیابی کی صورت میں تو آپ ہمارے بولنے پر پابندی بھی لگا سکتے ہیں۔گزشتہ پانچ سال ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس کے رہنما تو کھل کر کھاتے ہیں، کھل کر ہمیں کوستے ہیں، کھل کرہمارے خلاف مہم جوئی کرتے ہیں، کھل کر الیکشن کمیشن کے خلاف بات کرتے ہیں، کھل کر جعلی ڈگری والوں اور ٹیکس چوروں کو بچانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ مگر ن لیگ چھپ چھپ کر اپنے پیادوں کے ذریعے ہم پر حملہ آور ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف خود جعلی ڈگری کے مسئلہ پر خاموش ہیں۔ انہوں نے اپنی تمام تر اصول پسندی کے باوجود اپنی پارٹی کے اُن درجنوں اراکین کو ڈگریوں کی تصدیق کرنے کے لیے کوئی ہدایت جاری نہیں کی جو سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے احکامات کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ انہوں نے چوہدری نثار علی خان کی طرف سے الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈگریوں کی تصدیق کے لیے لکھے گئے خط پر رکاوٹ پیدا کرنے پر بھی کوئی بات نہیں کی۔ میاں صاحب نے حال ہی میں یہ تو اعلان کیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے مگر الیکشن کمیشن کی طرف سے اس سلسلے میں کاغذات نامزدگی اور الیکشن قانون میں ترامیم پر ن لیگ حکومت کے ساتھ کھڑی دکھائی دی۔ اب تو ن لیگ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے اصل کام سے ہٹ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن سے امید یہ کی جا رہی ہے کہ وہ جعلی ڈگری والوں اور ٹیکس چوروں سے رعایت کرے، الیکشن لڑنے والوں سے یہ تفصیل نہ مانگے کہ وہ اور اُن کے بیوی بچوں نے گزشتہ تین سال کن کن ممالک کا سفر کیا اور اس پر کتنا خرچہ آیا جبکہ ایک دھیلا ٹیکس دینا گوارا نہیں کیا ۔ ن لیگ سمیت اکثر سیاسی جماعتیں اس بات کے لیے تیار نہیں کہ وہ گزشتہ تین سال کے اپنے انکم ٹیکس اور زرعی ٹیکس گوشوارے بھی اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جمع کروائیں۔ اسی وجہ سے حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کے کاغذات نامزدگی پر اٹھائے گئے اعتراضات اور صدر کی طرف سے ان کی منظوری نہ دینے پر مسلم لیگ ن مکمل خاموش رہی مگر جیسے ہی الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وہ فیصلہ کیا جو سیاست میں کرپٹ افراد کو پارلیمنٹ سے باہر کرنے کا سبب بن سکتا ہے تو ن لیگ نے بھی الیکشن کمیشن پر اعتراضات اُٹھانے شروع کر دیے اور اپنے پیادوں کے ذریعے ہم پر بھی تیر برسانے کرنے شروع کر دیے۔ منگل کے روز کیپیٹل ٹاک میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرسید صمصام بخاری نے کہا کہ اُن کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر نہیں اور وہ انکم ٹیکس کے سالانہ گوشوارہ جمع نہیں کرواتے کیو ں کہ وہ ایک درمیانے درجہ کے زمین دار ہیں جن کے لیے نیشنل ٹیکس نمبر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی پروگرام میں موجود ن لیگ کے مہمان احسن اقبال نے الیکشن کمیشن کو تو ہدف تنقید بنایا مگر قوم کو یہ نہیں بتایا کہ صمصام بخاری سمیت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا ہر ممبرقانونی طور پر پابند ہے کہ اُس کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر ہو اور وہ سالانہ انکم ٹیکس ریٹرن بھی دیتا ہو مگر وہ خاموش رہے۔ وہاں موجود جہانگیر ترین نے یہ وضاحت کی اور قانون کی خلاف ورزی کی بات کی۔ ویسے جہانگیر ترین کو چاہیے کہ وہ اپنے پارٹی قائد عمران خان سے بھی یہ پوچھ لیں تو بہتر ہو گا کہ وہ بھی کھل کر ان مسائل پر کیوں نہیں بول رہے۔ آخر خان صاحب کی کیامجبوری ہے؟ پی پی پی، ن لیگ اور دوسر ی جماعتوں کی سیاسی مصلحتیں اپنی جگہ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ستر فیصد اراکین نے سال 2011 میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوے اپنا انکم ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا۔ کیا ایسے افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ کیا جعلی ڈگری والوں کو الیکشن لڑنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ٹکٹ دینا چاہیے۔ اگر نہیں تو پھر میاں صاحب کی خاموشی اور ن لیگ، پی پی پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کا جعلی ڈگری والوں اور ٹیکس چوروں کے حق میں ایکا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ سیاست میں انقلاب کی بات کرنا آسان ہے مگر اصل انقلاب کے لیے صفائی اپنے گھر سے شروع کی جاتی ہے۔ وہ انگریزی میں کہتے ہیں ناں کہ Charity begins at home ۔ باقی رہی ن لیگ کے پیادوں کی بات تو اُن کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ہمیں اپنی بات کرنے سے کوئی حکومت ، کوئی جنرل، کوئی آمر نہیں روک سکا تو وہ کس کھیت کی مولی ہیں۔
تازہ ترین