• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال:فتاویٰ رضویہ میں سُنن ابوداؤد کی ایک حدیث درج ہے : حضرت قاسم بیان کرتے ہیں: میں حضرت عائشہؓ کے پاس گیا اور ان سے عرض کی:ترجمہ:’’ اے اُمّ المومنین !میرے لیے رسول اللہ ﷺ اور ان کے دونوں اصحابؓ کی قبر کھول دیجیے ،پس انہوں نے میرے لیے قبریں کھول دیں ،جونہ تو بہت بلند تھیں اورنہ بالکل زمین سے ملی ہوئی اور ان پر میدان کی سرخ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں‘‘۔فتاویٰ رضویہ میں یوں ترجمہ کیا گیا ہے : ــ اماں جان ! حضور ﷺ اوران دوساتھیوں کی قبور سے پردہ اٹھادیجیے ،(جلد21،ص: 440)۔معلوم یہ کرنا ہے کہ اس روایت میں پردے سے کیامراد ہے ،کیا یہ پردہ حجرۂ مبارکہ پر تھا یا قبورِ مُقدسہ پر بطورچادر پڑاہواتھا ؟(میاں محمد وسیم ، فیصل آباد)

جواب:مُحدّثین نے اس حدیث کی شرح میں ’’ اکْشِفِی لِی ‘‘(میرے لیے قبر کو ظاہر کردیں یا کھول دیں)سے مراد پردہ ہٹانا ہی لیاہے اور ظاہر سی بات ہے کہ چادرتو قبر کے اوپر ڈلی ہوتی ہے اور قبر ظاہر ہوتی ہے ،جسے دیکھنے کے لیے کسی چیز کو ہٹانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ آج تک ہم نے سناہے کہ کسی نے کسی بزرگ کے مزار پر حاضری کے موقع پر اس پر ڈلی ہوئی چادر کو اٹھایا یا اٹھانے کی فرمائش کی ۔علامہ علی القاری ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:’’ میرے لیے قبر کو ظاہر کردیں اور پردوں کو اٹھادیں ،(مرقاۃ المفاتیح :1712)‘‘۔عون المعبودشرح ابی داؤد میں بھی اس حدیث کی شرح میں ابو عبدالرحمن محمد اشرف بن امیر بن علی بن حیدر عظیم آبادی لکھتے ہیں: اکْشِفِی لِی کی شرح ’’أَیْ أَظْہِرِی وَارْفَعِی السِّتَارَۃَ‘‘ یعنی میرے لیے قبر کو ظاہر کردیں اور پردوں کو اٹھادیں ، (عون المعبود جلد9،ص:28)‘‘۔امام احمد رضاقادریؒنے بھی اس حدیث کی بابت لکھا ’’مواہب اور اس کی شرح میں ہے:ترجمہ:’’امام ابوداؤد اور حاکم نے حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق ؓکی سند سے روایت کیا، فرمایا:میں سیدہ عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے ان سے عرض کیا: اما ں جان!حضورﷺاور آپ کے دو ساتھیوں کی قبور سے پردہ اٹھادیجئے، (الحدیث)امام حاکم نے یہ اضافہ کیا:’’جب اماں محترمہ نے قبور سے پردہ اٹھایا،تو میں نے حضور اقدسﷺ کی قبر اطہر دیکھی ،(فتاویٰ رضویہ ،جلد)‘‘۔’’ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: میں اپنے اس گھر میں، جہاں نبی کریم ﷺاور میرے والدمدفون تھے،داخل ہوتی توحجاب کی چادر اتار لیتی تھی،میں سمجھتی تھی کہ یہ میرے خاوند اور باپ ہیں(یعنی میرے شوہر رسول اللہ ﷺ اور والدِ محترم یعنی مَحرَم ہیں اور ظاہر ہے کہ شوہر اور مَحرَم سے ضروری پردہ ہوتاہے ،مکمل حجاب لازم نہیں ہوتا) ،جب ان کے ساتھ سیدنا عمر ؓکو دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم !اب میں وہاں داخل ہوتی ہوں ،تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حیا کرتے ہوئے اپنے اوپر اپنے کپڑے سختی سے لپیٹ لیتی ہوں(یعنی مکمل حجاب کا اہتمام کرتی ہوں)،(مسند احمد بن حنبل)‘‘ ۔ یہ روایت صحیح ہے،معروف عالم دین شعیب الارنؤوطنے اسے شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے،(جلد42)

علامہ احمد بن علی بن حجرالعسقلانیؒ لکھتے ہیں:’’ اوریہ خلافتِ معاویہؓ میں تھا ،پس ابتدا میں قبرِ انور ہموار تھی ،پھر عمر بن عبدالعزیز ؒکے دورِ خلافت میں ولید بن عبدالملک سے پہلے دیوار بنادی گئی اور اُسے بلند کردیا ، (فتح الباری لابن حجر )‘‘۔خلاصۂ کلام یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے قبر یا قبرِ انور یامزارِ مبارک یا روضۂ رسول کوئی بھی کلمہ استعمال کرنا خلافِ ادب نہیں ہے ،ہمیں ہربات کو جذباتی انداز میں نہیں لینا چاہیے ، دینی شعائر اور اقدار کو تسلیم کرنا چاہیے ، حدیثِ مبارک میں تو وضاحت نہیں ہے،لیکن بظاہر اس سے حجرۂ عائشہ صدیقہ ؓکا وہ پردہ مرادہے ،جو اُنہوں نے اپنی رہائش گاہ اور نبی کریم ﷺ وشیخین کے مزارات کے درمیان حائل کررکھاتھا،کیونکہ وہی آپ ﷺ کا مدفن ہے۔اس دور میں ہمارے زمانے کی طرح بزرگانِ دین کی قبور ومزارات پر اس طرح چادریں ڈالنے کا رواج نہیں تھا ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین