• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچوں کی طرح مجھے بھی ڈبل نمونیہ نے ایسا پکڑا کہ میری ڈاکٹر نے مجھے اسپتال کے بجائے گھر کی قید ِ تنہائی میں رکھا۔ صبح ہوتی تو نیبولائز، 10بجے انجکشن، 12بجے بھاپ، 2بجے سوپ، 4بجے نیبولائز، 6بجے انجکشن، 8بجے پھر بھاپ۔

قواعد و ضوابط اتنے سخت کہ مجھے کوئی دیکھنے نہیں آسکتا۔ کوئی سالن، کوئی شوربہ، کوئی روٹی ہرگز نہیں۔ کسی سے فون پر بات سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب کبھی ٹی وی کی طرف زبردستی دیکھنا، آٹا مہنگا سننا۔ جب کبھی اخبار دیکھنے کی کوشش، آنکھوں کے آگے تارے نظر آئیں۔ ٹی وی کی آوازیں۔ چینی بازار سے غائب۔ بغیر اخبار میں چھپے، دنیا بھر سے خوف ہاتھ اور سانس ساغر مے کی طرح کانپیں۔ کھانسی کے علاوہ اپنی ہی آواز سننے کو ترس گئی۔ میں اور میرا کمرہ۔ ڈاکٹر اور ان کا انتظام۔ مجال ہے روٹین میں فرق آسکے۔ خدا خدا کرکے ڈرپ اور انجکشن ختم ہوئے۔ کھولیں آنکھیں۔ ہر چینل کرونا وائرس کی خبریں چلا رہا تھا کہیں مجھے بھی تو...! ڈاکٹر نے خشمگیں نظروں سے دیکھا۔ پانی مانگا، مسلسل گرم پانی۔ نہانا چاہا خشک مگر گرم تولیہ حاضر بار بار اشاروں سے کہوں ذرا مجھ سے باتیں کرو پھر تقریر رواں۔ نصیحت۔ پتلا نازک شوربہ۔ بھاپ اور نیبولائز۔ چودھویں دن بیٹھی تو خبر سے ڈر گئی۔ نعیم الحق کا کینسر سے انتقال۔ آنکھوں میں یاد کیا، کوئی تین سال ہوئے، لندن اسمبلی میں میرے ساتھ شام تھی۔ جاوید شیخ نے اہتمام کیا تھا۔ نعیم الحق بےساختہ آکر بولے مجھے ان کی کالم نگاری پر بات کرنی ہے۔ میں نے سوچا سیاست دانوں میں یہ پڑھا لکھا کہاں سے آگیا۔ لکھنو سے اپنی وابستگی اور ادب سے دلچسپی کی مزیدار حکایت سنائی۔ پھر کیا ہوا۔ کوئی سال بھر پہلے ہم لوگ ’منٹو‘ فلم دیکھنے گئے۔ دیکھتے ہی بولے ’’مجھے خبر تھی آپ ضرور آئیں گی پھر زندگی اپنی اپنی ڈگر پر چلتی رہی۔ ایک دن تصویر میں دیکھا نعیم بستر پر، عمران خان اور قریشی صاحب کرسیوں پر۔ چلو خاص لاڈ ہورہا ہے۔ پھر میں اور میرے بستر کو دوائیوں کے علاوہ کچھ خبر نہ تھی۔ کل ہی تو اجازت ملی کہ بیٹھا کرو، سامنے اندوہناک منظر، شہناز جو تازہ واردِ سیاست تھی، اسکو خاندانی ملکیتی جھگڑے میں چھ گولیاں مار کر، دشمن خوش ہوئے، شہلا رضا کو فون کیا، وہ رو رہی تھی۔ ابھی دو گھنٹے نہیں گزرے کہ خبر آئی نعیم الحق کینسر سے مرگئے۔ آنکھیں بند کیں۔ پورا انگلینڈ طوفان کی زد پر۔ کرونا وائرس یورپ میں بھی۔ ٹیلی وژن نےمیرے کان میں کہا کشمیریوں کو قید ہوئے 196دن ہو گئے۔ ان سارے دنوں بھاپ لیتی رہی اور شہناز اور نعیم کو یاد کرتے ہوئے ذہن میں آیا، چند مہینے ہوئے کسی نے لکھا تھا کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں چوتھی منزل پر، تو کبھی کوہسار مارکیٹ میں نعیم الحق کے قہقہے گونجتے تھے۔ بھئی وہ خود کہتا تھا ’’میرے چاروں بچے، اپنے گھر خوش، میں عمران کے ساتھ خوش میرے ذہن کے مدفن میں جنازے بڑھتے جارہے تھے۔ شامیں لمبی ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ ہر شام کھڑکی سے شفق کے رنگ بدلتے دیکھتی رہی۔ کھانسی کی چھیڑ خانی جاری تھی۔ دنیا اپنی ڈگر پر چل رہی تھی۔ شفیق ہر دو گھنٹے بعد، ہیلتھ بلیٹن کسی نہ کسی کو سنا رہا تھا۔ سکھر آنے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔ رات دن ہدایات پر عملدرآمد میں گزرتا رہا۔ آخر کو کلین چٹ ملی۔ قلم پکڑنے کو دل تڑپ رہا تھا مگر بیٹھتے ہی دل پنکھا بن جاتا تھا۔ میں نے اپنے دل کے ساتھ کئی دفعہ ڈھٹائی کے ساتھ لڑائی کی تھی مگر اس دفعہ اس کا وار کاری تھا۔ ذہن کو بار بار کچوکے دے رہا تھا۔ دیکھو دنیا اپنی جگہ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہے۔ تم بڑی ٹارزن بنی پھرتی رہیں۔ دنیا کے غم سمیٹنے دنیا کا عالم دیکھو۔ انٹارکٹیکا میں20 ڈگری درجہ حرارت ہے۔ زیارت میں منفی 2ڈگری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بات تو کررہے ہیں مگر وہی ہونا چاہئے، جو ہونا چاہئے۔ ایسے فقرے سن کر بلڈ پریشر اور اونچا چلا جاتا ہے۔ پھر آواز شبانہ عارف ٹارزن کی بیٹی تم بس چپ رہو۔ گھڑی دیکھی تو سولہواں دن تھا، لیفٹ رائٹ کرتے ہوئے۔ اس عرصے میں کوئی خواب بھی نہیں آیا البتہ ایک غیرملکی فون نے مجھے ہنسا دیا آسٹریلیا سے میری دوست نے کہا ’’تمہاری مصور دوست لنڈے اور تمہاری 80ویں سالگرہ، ہم لوگ 28اپریل کو منارہے ہیں۔ تمہیں آنا ہے۔ میں اٹھ کر اپنی راکنگ چیئر پر بیٹھ گئی۔ کہیں سے پھر آواز آئی ’’دیکھو تو دنیا تم سے کتنی محبت کرتی ہے۔ ہمت کرو قلم اٹھائو اتنے دن بعد، کاغذ سے شناسائی پیدا کرو، چوبیس گھنٹوں کے سولہ دن۔ زمین کے قریب سے ایک سیارچہ ہو کہ گزر گیا، اکرام اللہ کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ وہ بھی ٹھیک ہو گیا۔ امریکہ میں احمد مشتاق روز فون کرکے پریشان تھے، بیٹے حیران ہیں۔ ڈاکٹر ان کو آنے سے منع کیے جارہی ہے۔ آج اس نے بتایا تھا تمہاری بیماری کے دوران لوگوں نے فیض صاحب اور غالب کی سالگرہ منائی۔ اب تو فیض کو بھی غلط پڑھنے کی روایت بن گئی ہے۔ میں نے پوچھا ڈاکٹر میں نعمان الحق کی بنائی ہوئی کلیاتِ فیض پڑھ سکتی ہوں، ڈاکٹر بولی:پر بہت موٹی کتاب ہے۔ کچھ دن بعد عبداللہ جاوید نے مارکسیز کی کتاب تنہائی کے سو سال کا کرداری طرز پر تجزیہ کیا ہے۔ وہی چھپ چھپ کر ایک دو صفحے پڑھتی رہی، سرور نقشبندی صاحب نے مدحت کا لغت نمبر بھیجا تھا۔ تھوڑا سا وہ پڑھا۔ اب قلم نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ سورج غروب ہو چکا ہے۔ زندگی مجھے ہاتھ پکڑے کمرے سے نکلنا چاہتی ہے۔ اجازت ملی ہے میرے قلم کے لئے آپ کی محبت ہی تو مجھے اٹھا کر بٹھا گئی ہے۔ سولہ دن میں آپ مجھے بھول تو نہیں گئے، دنیا اپنی چال چلتی رہی ہے۔

تازہ ترین