میونخ: مائیکل پیل، گائے چازان اور ہیلن ویرل
سالانہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس پر چین کی جانب سے ممکنہ سیکیورٹی خطرات کو اہمیت حاصل رہی،جس میں یورپ کے اندر اور ٹیکنالوجیز کمپنیوں اور حکومتوں کے مابین نقائص کا بھی انکشاف ہوا۔
امریکی وزیر دفاع امرک ایسپر نے بین الاقوامی شراکت داروں سے کہا کہ 5 جی جیسی حساس ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کا کنٹرول سنبھالنے کیلئے بیجنگ کی مذموم حکمت عملی کے بارے میں ہوشیار ہونا ہے۔
ان واضح بیانات کےچین کے وزیر خارجہ وانگ یی کی جانب سے سختی سے مقابلے نے یورپی یونین کے رکن ممالک میں یہ خدشہ پیدا کیا ہے کہ انہیں امریکا اور چین کے مابین کسی ایک طاقت کے انتخاب پر مجبور کیا جارہا ہے،جو کہ وہ نہیں کرنا چاہتے۔
اگرچہ چین کے عروج کے سیکورٹی اور اسٹریٹجک اثرات پر یورپی ممالک بھی امریکی خدشات میں شریک ہیں، لیکن بیشتر بالخصوص 5 جی سمیت دیگر شعبوں میں متبادل کی کمی کو دیکھتے ہوئےچین کو برادری سے نکالنا عقلمندانہ یا حقیقت پسندانہ نہیں سمجھتے۔
یورپ کا ٹرمپ افلاطونیت
اس امید پر برداشت کرنا کہ ایک مدت کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کو بحیثیت امریکی صدر تسلیم کرنا امریکا کے ساتھ گہری ساختی تبدیلی کے مترادف ہوگا،متعدد یورپی ممالک اس حوالے سےمایوس ہوگئے ہیں۔
ہالینڈ کے وزیراعظم مارک روٹے نے کثیرالجہتی کے بارے میں امریکا کے بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات کو تبدیل کرنے کی کوششوں سے یورپ کیلئے مشکل سے موقع تک ابھرتے ہوئے ٹرانسلانٹک کا حقیقت پسندانہ خلاصہ پیش کیا ،اگرچہ ابھی بھی عالمی طور پر حصہ دار نہیں ہے۔
انہوں نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ہم کچھ بین الاقوامی اسٹرکچرز جیسے اقوام متحدہ،نیٹو اور ڈبلیو ٹی او کو تبدیل کرنے کیلئے ٹرمپ کو استعمال کرنے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرنے سے دور ہورہے ہیں۔دو سال تک ہم یہ بحث کرتے اور پوچھتے رہے کہ وہ وہاں کیوں ہوسکتے ہیں؟،لیکن اب وہ وہاں ہیں تو آئیے ان کی موجودگی کا استعمال کریں۔
یورپ میں دراڑیں
فرانس اور جرمنی کے مابین تعلقات کی نازک صورتحال میونخ میں بھی نظر آئی ۔
فرانسیسی صدر ایمونئیل میکرون نے کہا کہ اگر فرانس اور جرمن تعاون یورپ میں متوسط طبقے کے مستقبل کے لئے نقطہ نظر پیش کرنے میں ناکام ہوئے تو ہم ایک تاریخی غلطی کریں گے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ ہم اب ایک ایسا براعظم بن رہے ہیں جسے اپنے مستقبل کے بارے میں یقین نہیں ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ مایوس ہیں کہ جرمنی یورپی یونین میں اصلاحات کے بارے میں اپنی تجاویز دینے میں ناکام رہا ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ مایوس تو نہیں لیکن میں بے چین ہوں۔
جرمنی کی طویل عرصے سے چانسلر اور معروف احتیاط پسند انجیلا میرکل اس بے چینی کا مرکز ہیں اور میونخ میں ایمانوئیل میکرون نے انگیلا میرکل کے بعد کے دور پر اپنی نگاہ رکھی ہے۔فرانسیسی صدر نے انجیلاا میرکل کے سی سی ڈی یو سے کچھ ہی پوائنٹس پیچھے چلنے والی جرمن گرین پارٹی کے دو رہنماؤں ایناالینا بیربوک اور رابرٹ ہیبیک کے ساتھ تین گھنٹے طویل عشائیہ کیا۔
جرمنی کے وزیرخارجہ ہیکو ماس نے دنیا میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کے لئےاپنے ملک کی کوششوں پر روشنی ڈالی، جس میںمزید فوج تعیناتیوں کی بات کرنا شامل ہے،مثال کے طور پر شمالی افریقہ کے ساحلی علاقے میں جسے انتہا پسند گروہوں نے عدم استحکام سے دوچار کیوا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمہ گیر امریکی عالمی پولیس مین کا دور بہت قریب نظر آرہا تھا،جس کا زور توڑنے کیلئے جرمنی کو یہ اقدام لینا پڑا تھا۔
تاہم جرمنی کی جارحانہ مدد کیلئے آمادگی کے بارے میں کچھ شکوک شُبہات ہیں۔ گزشتہ سال جرمنی نے فرانس کی جانب سے فرانس کی چھ سالہ ساحل مہم کیلئے فوجی امداد فراہم کرنے کی درخواست کو دو بار مسترد کردیا تھا۔جرمن حکام کا کہنا ہے کہ مشترکہ خصوصی آپریشن ٹاسک فورس میں جرمنی کی شرکت سے ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
غلط اطلاعات کا عروج
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 2016 میں امریکی صدارتی انتخابی مہم میں روسی غلط اطلاعات کی مہم سے سبق سیکھا تھا۔
تاہم سیکیورٹی عہدیداروں نے ان خدشات کے بارے میں نجی طور پر بات کی ہے کہ عوام بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ اور دشمن ریاستوں کی جانب سے سازش کے خطرے سے آگاہ نہیں ہیں۔ایک نے کہا کہ لوگوں کے نوٹس میں آئے بغیر کہ وہ بحران کی سطح پرپہنچ گئے تھے، غلط اطلاعات کو جمہوریت کیلئے پریشان کن سے لے کر سنجیدہ خطرات تک عبور کرنا آسان ہوگا۔