• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شخصی آزادی کیا ہے ؟انسانیت کی تذلیل کب ہوتی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو میرے اندرسے بارباراٹھ رہے ہیں۔ مختلف چینلز دیکھے اور اخبارات پڑھنے کے باوجود مجھے ان کا جواب نہیں مل پارہا۔ کل ٹی وی کےخبرنامے میں بتارہے تھے کہ بونیر کے علاقے میں ماربل کے پہاڑ توڑتے ہوئے ایک چٹان 30 مزدوروں پرآگری۔ جس کے نتیجے میں آٹھ افراد موقع پر ہلاک اور بقیہ زخمی ہوگئے ۔جس میں سے کچھ ملبے میں بہت دیرتک دبے رہے۔ اس خبر کی تفصیل جاننے کے بعد دل دکھ گیا کہ ان مزدوروں کے انتقال پر کہیں سے بھی کوئی افسوس اور تعزیت نہیں کی گئی۔ اخبارات میں بھی اندرونی صفحوں میں ایسے جگہ دی گئی کہ جیسے یہ معمول کی خبر ہو۔ ہم تو پڑھتے آئے تھے کہ " ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے" مگر شاید یہ ہمارے معاشرہ کے لیے نہ ہو۔ ہمارے ہاں " عام آدمی کا قتل" معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے ۔ کیونکہ" وہ صرف" مرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ زندہ رہیں تو غیرمعمولی بات ہوگی۔ کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے آواز نہ اٹھائی " کیاوہ انسان نہ تھے" ؟کیا ان کی جان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری نہ تھی؟ کتنی ہی عجیب بات ہے کہ کئی افراد کے قاتل کو سزائے موت دی جائے تو انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی حمایت میں "سزائے موت کو انسانیت کی تذلیل "قرار دے کر اسے عمرقید میں تبدیل کروانا چاہتی ہیں۔ پھرننھی پریوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے وحشی کو "سرعام سزائے موت "دینے کاکہا جائے تو یہ تنظیمیں تڑپ اٹھتی ہیں اور اسے "غیرانسانی "قرار دیتی ہیں۔ تو کیا وہ مزدور " اپنی ذاتی کان یا پہاڑ" سے ماربل نکال کر " اپنی ذاتی ماربل فیکٹریوں" میںلانا چاہ رہے تھے؟ کیا وہ ماربل ملکی اورغیرملکی منڈیوں(مارکیٹ) میں بیچ کر غیرمعمولی منافع کمارہے تھے ؟اسی لیے انہیں اپنی جان کی حفاظت کے لیے " ساری احتیاطی تدابیر" خود اٹھانی چاہئیں تھیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہے ۔ وہ مزدور اپنے گھرکاخرچہ چلانے کے لیے معمولی معاوضہ کے عوض اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر کام کررہے تھے۔ جہاں کسی قسم کی کوئی حفاظتی اور احتیاطی تدابیر نہیں کی جاتیں۔ ایسے میں نہ جانے کتنے مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہوں گے اور کتنے ہی تاعمراپاہج ومحتاج ہوتے ہوں گے۔ جن کے اعدادوشمار بھی کسی کو معلوم نہیں۔ لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ماربل کاکاروبار سب سے کامیاب کاروبار ہے۔ اس کے ایکسپورٹراربوںمیں کھیلتے ہیں۔ لیکن جو مزدور اس کا ذریعہ بنتے ہیں ان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔کیا ہمارے یہاں ان کے حفاظتی لباس فراہم نہیں کئے جاسکتے ؟ باحفاظت کام کرنے کے طریقہ کار کو طے نہیں کیا جاسکتا ہے؟ لیبرلاز (مزدوروں کے قانون) صرف شہری علاقوں کے " مستقل"

مزدوروں تک ہی محدود کیوں ہیں؟یہ مزدور اپنے حقوق سے محروم کیوں؟کیوں ہر سال " پہلی مئی " کو مزدور کا دن منایا جاتا ہے۔ جبکہ زیادہ سے زیادہ منافع کے جنون میں صرف مزدور کی مزدوری کو ہی کم کیا جاتا ہے۔ کبھی دوسرے عاملین پیدائش (Factors of production)کے معاوضوں میں اس طرح کمی نہیں کی جاتی۔ ایک طرف انسانیت کی گردان اس پر لیکچر اور دوسری طرف سارا زور مزدورکاخون چوس لینے میں ہے۔ ہے کوئی جوان سوالات کے جوابات دے سکے کہ آخر انسانیت کی تذلیل کسے کہتے ہیں؟ انسانیت کا معیار ہے کیا؟ شخصی آزادی کس چڑیا کا نام ہے؟

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین