جنوبی ایشیا میں امریکہ بھارت کا سب سے بڑا سرپرست اور مربی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ اس خطے میں اپنے سیاسی اور تجارتی حریف چین کو نیچا دکھانے کے لئے بھارت کو اس کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری یہ کہ ایک ارب سے زائد آبادی والا بھارت دنیا میں مہلک ترین امریکی ساختہ اسلحے اور سامان تجارت کی سب سے بڑی منڈی اور امریکہ کے لئے ’’مال‘‘ بنانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسی لئے سوویت یونین کے انہدام کے بعد جس اسٹریٹجک شراکت دار یعنی پاکستان کے کندھے استعمال کرکے اس نے دنیا کی واحد سپر پاور کا مقام حاصل کیا آنکھیں پھیرنے میں دیر نہ کی، اس کے خلاف بھارتی حکمرانوں کے ایما پر منافقانہ رویہ اختیار کر لیا اور حیلے بہانے تراش کر دھونس دھمکی اور دبائو کے ذریعے اس کے درپے آزار ہو گیا۔ اس پسِ منظر میں پیر کو احمد آباد میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آر ایس ایس کے پیروکاروں سمیت ایک لاکھ سے زائد انتہا پسندوں کے مجمعے، بالخصوص ان کے سیاسی گورو نریندر مودی کے سامنے پاکستان کی تعریف میں اچھے کلمات جہاں ہمارے لئے اطمینان کے کئی پہلو رکھتے ہیں وہاں ان میں بھارت کے لئے حیرت شرمندگی اور پریشانی کے بہت سے اسباب بھی مضمر ہیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے ٹرمپ کو جال میں پھنسانے کے لئے احمد آباد کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم میں ’’نمستے ٹرمپ ریلی‘‘ کے نام سے امریکی صدر کے استقبال کا اہتمام کیا تھا لیکن امریکہ بھارت دوستی کے پُرجوش نعرے لگانے والے مجمعے میں اس وقت اچانک سکتہ طاری ہو گیا جب ٹرمپ نے اپنی تقریر میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے اسے امریکہ کا اچھا دوست قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات شاندار ہیں۔ میری انتظامیہ مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر مثبت انداز میں کام کر رہی ہے اگرچہ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف شہریت کے متنازع قانون کے بارے میں کچھ نہیں کہا، اس کے برخلاف بھارت سے 3ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے، خلائی شعبے میں تعاون اور جدید ترین ہتھیار دینے کا اعلان کردیا مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے شہری حقوق اور کشمیر کا معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ مذاکرات میں ضرور زیر غور آئے گا کیونکہ ٹرمپ کی احمد آباد آمد پر دلی میں حقوق شہریت کے لئے دھرنا دینے والوں پر مودی کے حامیوں نے ہلہ بول دیا۔ مسلمانوں کی دکانیں، پیٹرول پمپ اور مزار جلا دیئے۔ اس ہنگامے میں ایک پولیس اہلکار سمیت چارافراد جاں بحق ہو گئے۔ یہ معاملہ ٹرمپ کے علم میں یقیناً آگیا ہوگا۔ پاکستان سے متعلق ٹرمپ کا خوشگوار بیانیہ درحقیقت 2019کے وسط سے امریکی سوچ میں آنے والی تبدیلی کا آغاز ہے جب مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کے بعد کشمیر کے مسئلے نے نیا رُخ اختیار کر لیا اور وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں پاکستان کے موقف کو پوری شد ومد سے اجاگر کیا۔ افغان مسئلہ پر پاکستان کے مثبت کردار نے بھی امریکہ کو اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کیا۔ ٹرمپ کی جانب سے بھارت میں کھڑے ہو کر پاکستان سے دوستی کا اظہار پاکستان کے نقطہ نظر سے بہت بڑی پیش رفت ہے۔ اس کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی ختم کرانے کے لئے سنجیدہ ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہےکہ جنوبی ایشیا میں تنائو مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ختم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان نے افغانستان سے امریکہ کی واپسی کی راہ ہموار کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہی کردار اب امریکہ کو کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلانے کے لئے ادا کرنا ہوگا۔