کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی ایسے رخ تبدیل کرے گی۔ کل تک کروڑوں میں کھیل رہا تھا اور آج کروڑوں کا مقروض ہو چکا تھا۔ وہ بیوی جو عجز و انکساری اور وفا شعاری کا پیکر تھی آج حالات بدلتے ہی طلاق کا تقاضا کررہی تھی۔ صرف طلاق ہی نہیں بلکہ وہ میری دونوں بیٹیوں کو لیکر اپنے والدین کے گھر بھی چلی گئی۔ میں نے تو صرف قصے اور کہانیوں میں لوگوں کو پل بھر میں آسماں سے زمین پر آتے سنا تھا لیکن آج خود اس کہانی کا مرکزی کردار بن گیا تھا۔ میں 1997میں جاپان آیا، چھوٹی موٹی نوکریوں سے زندگی کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار نے ترقی کی اور کئی ممالک میں گاڑیوں کی برآمدات شروع کیں۔ دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔ جاپانی خاتون سے شادی کی، دو خوبصورت بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ بیٹے کی خواہش تھی، گھر والوں کا بھی دبائو رہا کہ ایک شادی پاکستان میں بھی کروں لیکن کبھی ان کی بات نہ مانی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کاروبار کو بڑھانے کے لیے بینک سے دس کروڑ تک لون لے لیا، کم شرح سود پر لئے جانے والے قرضے سے کاروبار کو بھی خوب وسعت ملی لیکن پھر سنہ دو ہزار آٹھ میں لہمن شاک Lehman shockکے نتیجے میں دنیا بھر میں معاشی بحران پیدا ہوا۔ کئی ممالک نے اپنی آٹو موبائل درآمدی پالیسی میں تبدیلی کردی جس کے سبب میری لاکھوں ڈالر کی خریدی مہنگی گاڑیاں کچرا ہو گئیں۔ کوئی انہیں خریدنے کو تیار نہ تھا جبکہ ہر ماہ بینکوں کو قرضے کی ایک بھاری قسط بھی ادا کرنا ہوتی تھی جو ادا کرنے سے قاصر ہو گیا۔ کریڈٹ کارڈز کے بل، گھر کی قسطیں، غرض دیکھتے ہی دیکھتے میں قلاش ہو چکا تھا۔ جو لوگ ملنے کے لیے ترستے تھے اب وہ کنی کترانے لگے۔ بیوی نے طلاق کا پروانہ ہاتھ میں تھما دیا۔ بیٹیاں بھی اس کے پاس تھیں۔ والدین کی خواہش تھی کہ اگر بیوی سے علیحدگی ہو بھی گئی ہے تو بیٹیاں پاکستان لے آئو تاکہ اچھی تربیت ہو سکے۔ پھر ایک روز سوچا بھی کہ بیٹیاں لیکر پاکستان چلا جائوں اور یہ سوچ اس قدر حاوی ہوئی کہ ایک روز میں اہلیہ کے گھر پہنچ گیا جیسے ہی اس کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا دونوں بیٹیاں اپنی ماں کے ساتھ اس قربت کے ساتھ سوئی ہوئی تھیں جیسے وہ اس کے جسم کا ہی حصہ ہوں۔ ماں بیٹیوں کی یہ قربت دیکھ کر میں نے ان کو پاکستان لے جانے کا ارادہ ترک کردیا اور جاپان میں نئی زندگی کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ کئی ماہ تک دماغ مائوف رہا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ زندگی کہاں سے دوبارہ شروع کروں۔ اللہ تعالیٰ نے ساتھ دیا اور پھر سے کاروبار شروع کیا اور اس بار اس تیزی سے ترقی کی کہ خود بھی یقین نہ آتا تھا۔ کاروبار میں تیزی آئی تو سب سے پہلے بینکوں کا قرضہ اتارا۔ بیوی بچوں کے لیے بہترین گھر تیار کرایا، بچوں کی تمام ذمہ داریاں سنبھالیں اور انہیں وہ تمام آسائشیں فراہم کیں جس کی کوئی تمنا کر سکتا تھا۔ بچیوں کے لیے دینی تعلیم کا بندوبست بھی کیا۔ بیٹیاں بڑی ہوئیں، بڑی بیٹی ہائی اسکول میں داخل ہوئی۔ وہ اکثر مجھ سے پاکستان اور میرے والدین کے بارے میں سوال کرتی۔ میں ہمیشہ اس کو پاکستان اور اسلام کے بارے میں بتاتا۔ ایک روز میری بیٹی نے مجھے سرپرائز دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے پورے صوبے میں ہائی اسکول کے امتحانات میں نہ صرف ٹاپ کیا ہے بلکہ اس نے جاپان کی سب سے بہترین یونیورسٹی ٹوکیو یونیورسٹی کے فارن اسٹڈی میں شعبہ اردو میں داخلے کے کئی امتحان پاس کرنے کے بعد داخلہ بھی حاصل کر لیا ہے۔ میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں تھی کہ میری بیٹی نے والدہ کے ساتھ رہنے کے باوجود میرے ملک کی زبان میں گریجویشن کا فیصلہ کیا۔ آج ہی مجھے ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈی کے پروفیسر عامر احمد خان نے بھی ایک تقریب میں مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ رانا عابد حسین صاحب یہ ٹوکیو یونیورسٹی کی ایک سو دس سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہے کسی پاکستانی اور جاپانی کی اولاد نے شعبہ اردو میں داخلہ لیا ہے جس کے لیے آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بلاشبہ آج میری زندگی کا خوشگوار ترین دن تھا اور آج مجھے اپنی والدہ کی کہی ہوئی بات یاد آرہی تھی کہ بیٹا فکر نہ کرو، تمہاری بیٹیوں میں ہمارا خون دوڑ رہا ہے اور ایک دن یہ خون ضرور بولے گا۔ آج میری بیٹی نے تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اردو زبان کی تعلیم حاصل کرکے ثابت کردیا کہ اس کی رگوں میں ہمارا خون شامل ہے۔