• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کا زمانہ ساٹھ ستّر سال پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکا ہے۔ ہمارے ماضی کے بہت سے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے ،مگر معاشرہ بہر حال کسی نہ کسی سمت میں آگے بڑھا ہے۔ آج کی بین الاقوامی دنیا بھی ماضی کی دنیا سے بہت مختلف نظر آتی ہے۔ یہ ہماری توقعات اور خواہشات کے مطابق تشکیل نہ پائی ہو تب بھی یہ آج کی حقیقت تو ہے۔ یہی نہیں بلکہ آج کے تناظر میں ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم اپنے عہد کا، اپنے عصر کا شعور حاصل کریں اور پھر یہ طے کریں کہ آج ترقی پسندی کے تقاضے کیا قرار پاتے ہیں۔

ترقی پسندی ایک روّیے، ایک زاویۂ نگاہ، ایک اسلوبِ فکر اور ایک طرزِ فکر وعمل کا نام ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ترقی پسندی نہ تو کسی فردِ واحد کی ایجاد ہے اور نہ ہی اِس کے آغاز کو کسی خاص دور یا عہد سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ انسانی تاریخ کے ارتقائی سفر میں جمود کے بجائے تبدیلی کے عمل سے ہم آہنگ ہونا اور انسان کے مستقبل کو اُس کے ماضی اور حال سے بہتر بنانے کی جدوجہد کرنا، ابتدائے آفرنیش سے انسانی کاوشوں کا ایک محور رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ترقی پسندی کا سفر کرۂ ارض پر انسانی حیات کے آغاز ہی سے شروع ہو چکا تھا۔ ترقی پسندی ہر عہد میں حیات آفرینی اور مستقبل کے حوالے سے روشن خیالی کی علمبردار رہی ہے۔یہ واہموں اور غیر حقیقی چیزوں پر عقل کی بالادستی کا نام ہے۔ جبر کے مقابل انصاف کی آواز ہے۔ انسان دوستی کی پیامبر ہے۔ موت کی قوتوں کے مقابلے میں حیات پرور قوتوں کی طرف دار ہے۔ انسانی تاریخ کے سارے عمل کو کسی بھی مقام پر زیرِ مطالعہ لایا جائے تو یہ فیصلہ کرنے میں بالکل دشواری نہیں ہوتی کہ اُس مقام پر اور ماضی کے اُس مخصوص عہد میں کشمکشِ حیات کی نوعیت کیا تھی اور ترقی پسندی نے اس مقام پر کیا کردار ادا کیا تھا۔

صدیوںپر پھیلی ہوئی انسانی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر عمومی سطح پر یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ اس پوری تاریخ میں انسان کو کن بنیادی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا یا حیات کی کشمکش میں انسان کے بڑے حریف کون ثابت ہوئے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بنیادی طور پر انسان دو طرح کے چیلنجوں سے نبردآزما رہا ہے۔ ان میں پہلا چیلنج تو نظامِ کائنات میں انسان کے مقام اور اس کے وجود کی بقاء کا چیلنج تھا۔ یہ کرۂ زمین اس نظامِ کائنات کا صرف ایک حصہ ہے اور انسان کرہّ ارض پر پائی جانے والی بے شمار انواع میں سے محض ایک نوع __کائنات کے بہت سے عناصر انسان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں اور بنتے رہے ہیں۔ موسموں کی شدت، سیلاب، زلزلے، طوفان اور ایسے ہی دوسرے حادثات ہمیشہ انسانی وجود کے درپے رہے ہیں۔ لیکن انسان نے بقا کی یہ لڑائی کسی نہ کسی طور اپنی نوع کے تسلسل کو یقینی بناتے ہوئے جیتی ہے۔ لیکن اس کی نوع کو لاحق خطرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔

انسان اور نظامِ فطرت کے اس تضاد کے علاوہ جو دوسرا تضاد انسانی تاریخ کے ایک طویل دور انیے پر پھیلا ہوا نظر آتا ہے وہ انسان اور انسان کے درمیان پایا جانے والا تضاد ہے۔ یہ تضاد یا چیلنج حضرتِ انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ اس تضاد کا آغاز انسانی معاشرے میں ملکیت کے تصور کے پیدا ہونے کا شاخسانہ ہے۔ اس تصور نے انسان اور انسان کے درمیان خلیج پیدا کی، اس کو طبقوں میں تقسیم کیا اور یوں کشمکش کے ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں پیداواری نظاموں کی تبدیلی کے ساتھ طبقاتی استحصال کی نوعیت اور اس کی شکل بدلتی رہی ہے مگر استحصال کا یہ نظام بہر صورت جاری رہا ہے۔ اس نظام نے ریاستوں کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا اور ان میں جنگیں کروائیں۔ یہی نظام استعماریت اور سامراجیت کی اساس بنا اور اسی نے انسانی معاشرے میں صنفی تفریق پیدا کی۔

تاریخ کے صدیوں کو محیط عمل میں مذکورہ بالا دونوں بنیادی تضادات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چھوٹے بڑے دوسرے تضادات کے تناظر میںترقی پسندی ہمیشہ انصاف، پیش رفت اور عقل وخرد کی علمبردار اور طرف دار رہی ہے۔ اس نے جنگوں کے مقابلے میں امن کی حمایت کی ہے۔ طبقاتی استحصال کی جگہ غیر طبقاتی نظام کی وکالت کی ہے۔ صنفی تفریق کی جگہ صنفی برابری کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ رجعت پسندی کی جگہ خرد افروزی کی بات کی ہے۔ استعماریت کے مقابلے میں قومی آزادی کی تحریکوں کوکمک پہنچائی ہے۔ فرد کی انا کے مقابلے میں اجتماعی طرزِ فکر پر زور دیا ہے اور نیچر کے تحفظ کے ساتھ ساتھ تحفظِ ذات کے لیے کوشش کی ہے۔ غرض ماضیٔ قدیم سے عہدِ حاضر تک ترقی پسندی کا راستہ واضح، صاف وشفاف اور عقلِ سلیم کے ذریعے فوری طور پر پہچان لیا جانے والا راستہ رہا، البتہ آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں کچھ اس قسم کے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ عقلِ سلیم رکھنے اور اچھے ،بُرے کے درمیان تمیز کرنے کی اہلیت سے متّصف اچھے خاصے لوگ بھی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ اگر ماضی میں ترقی پسندوں کی آزمائش، ترقی پسند فکر کو اختیار کرنے کے بعد درپیش ہونے والی مشکلات ومصائب کی شکل میں سامنے آتی تھی، اس آزمائش سے ترقی پسندوں کی اکثریت بڑے شجاعانہ انداز میں عہدہ برآہوئی مگر آج ترقی پسندوں کی آزمائش یہ قرار پائی ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ آج کے مخصوص حالات میں ترقی پسندی کس کو کہا جائے۔ ہمارے آس پاس کی دنیا ادھر پچھلے ۲۰، ۲۵ برسوں میں کچھ اِس طرح سے بدلی ہے کہ چیزیں اب سیاہ وسفید کے الگ الگ دائروں میں نظر نہیں آتیں۔ بلکہ سیاہ وسفید کے درمیان اور کئی شیڈز دیکھے جاسکتے ہیں۔ بہت سی چیزوں کی معنویت بدل چکی ہے، الفاظ کے مفہوم بدل گئے ہیں۔ کل تک جو صحیح تھا آج وہ غلط قرار پا رہا ہے۔ کل جو غلط سمجھاجاتا تھا آج اس کے صحیح ہونے پر اصرار ہے۔ سامراجی طاقتیں جمہوریت کی نام لیوا نظر آتی ہیں۔ مشرقِ وسطی کے تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں اگر امریکہ اور یورپی ممالک کو تیل کی دولت پر تصرف حاصل ہے تو وہاں کی بادشاہتیں ان کی منظور نظر ہیں مگر جن ملکوں میں امریکہ اور تیل کے درمیان شخصی حکمرانیاں حائل ہیں وہاں امریکہ جمہوریت کے نام پر مداخلت کررہا ہے اور ایک دنیا اس کو مشرق وسطیٰ کے جمہوری بننے کا عمل ہی سمجھ بھی رہی ہے۔آج مذہبی بنیاد پرستوں کو ریڈیکل کہا جانے لگا ہے۔ ایٹمی ہتھیار امن کی ضمانت قرار دیے جارہے ہیں۔ ستر، اسّی سال قبل لاؤڈ اسپیکر اور ریڈیو کے خلاف فتوے جاری کرنے والے آج سیٹیلائیٹ چینل چلا رہے ہیں اور اُن کے ایف۔ ایم ریڈیو دنیا جہاں میں پھیلے ہوئے ہیں۔جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیچھے کی طرف جانے کا سفر جاری ہے۔لااِکراہَ فِی الدّین کا ورد بھی جاری ہے اور عقیدوں کی نفرتیں اور مسلکوں کی دہشتیں بھی ہیں۔ غرض یہ آج کی دنیا ہے، کل کی دنیا سے مختلف، بہت مختلف__ چہار سوغلط فہمیوں کی فضا قائم ہے اوراس فضا میں اب یہ بھی اچھی خاصی آزمائش ہے کہ ترقی پسندی کے مفہوم کو طے کیا جائے۔

آج ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ گلوبلائزیشن کی دنیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بات کی جائے یا ریاستوں کے حوالے سے گفتگو ہو یا پھر ایک فرد کی نسبت سے گفتگو کی جائے آج کی سب سے بڑی حقیقت یہی گلوبلائزڈ دنیاہے۔ اِس گلوبلائزیشن کے نتیجے میں ریاستوں کا کردار از سرِ نو متشکل ہو رہا ہے۔ فرد کے انفرادی میلانات اور رجحانات پر بھی اس گلوبلائزیشن کا براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔ گلوبلائزیشن بنیادی طور پر سرمائے کی وسعت اور ریاستی حدود قیود کو توڑتے ہوئے اس کے پھیلائو کا نام ہے۔

ثقافتی سطح پر گلو بلائزیشن کے دو بڑے نتیجے سامنے آرہے ہیں۔ ایک تو وہ ترقی یافتہ ملک جو یا تو صنعتی اعتبار سے سب سے زیادہ آگے نکل چکے ہیں یا جنہوں نے صنعتِ جنگ گری اور اسلحہ سازی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، لا محالہ طور پر انہی کی ثقافتیں گلوبلائزیشن کے وسیلے سے دنیا بھر میں توسیع حاصل کر رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی یہ ثقافتی بالادستی ان کو تہذیبی وثقافتی سطح پر بھی اجارہ داری کے منصب پر فائز کر رہی ہے۔اس بالا دستی کے سامنے وہ ثقافتیں دم توڑ رہی ہیں جو چھوٹے چھوٹے علاقوں یا بہت کم افراد کی نمائندگی کرتی رہیں۔ گلوبلائزیشن کے زیرِ اثر بالا دست ثقافت کے غلبے کے نتیجے میں چھوٹی زبانیں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں،خاص طور سے افریقہ اور جنوبی امریکاکی کئی چھوٹی چھوٹی زبانوں کو رفتہ رفتہ معدوم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ پیروکی حکومت نے ایک مقامی زبان’ کو ویشووا ‘(Quechua) کے تحفظ کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیا ہے۔ سو گلوبلائزیشن کے تناظر میں ایک چیلنج تو یہی ہے کہ دنیا کی چھوٹی چھوٹی زبانیں اور ثقافتیںجو نسبتاً کم افراد کی زبانیں اورثقافتیں ہونے کے ناطے تو شاید چھوٹی قرار دی جاسکیں لیکن جن کا تخلیقی جوہر بڑے حلقوں میں بولی جانے والی زبانوں اور اُن کی ثقافتوں سے کم ترنہیں ہے، ان کو کس طرح سے تحفظ حاصل ہو۔اس سلسلے میں حکومتوں پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان زبانوں اور بولیوں کے بچائو کے لیے اقدامات کریں۔ زبانوں کے بچائو کا ایک طریقہ اُن پر اصرار اور ان کو تیزی کے ساتھ ترقی یافتہ بنانے اور ان میں دوسری زبانوں کی چیزوں کا ترجمہ کرنے کا طریقہ ہے۔ جاپان نے اپنی زبان بچانے کے لیے اپنے وسائل کا معتدد بار انگریزی سے جاپانی میں تراجم کروانے پر مختص کرنا شروع کردیا ہے۔چین، جنوبی کوریا اور روس جو عالمی معیشت کا حصّہ بن چکے ہیں، وہاں تجارتی وقانونی اصطلاحات کے تراجم کے لیے ادارے دن رات کام کر رہے ہیں جو بین الاقوامی پیٹنٹ، ٹریڈ مارک، کاپی رائٹ اور کاروباری معاہدوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کرنے پر مامور ہیں۔ ان ملکوں میں صارفین کی اتنی بڑی تعداد پائی جاتی ہے کہ خود صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ان ملکوں کی زبانوں میں اپنی چیزیں منتقل کر رہے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین