• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذہن میں وہی آئے گا جو آپ کی میلانِ طبع کے مطابق ہے اور میلانِ طبع وہی ہوتی ہے جس میں آپ کی ذہنی، فکری اور قلبی شخصیت ڈھل چکی ہو۔ جس سانچے میں انسان کی شخصیت ڈھلتی ہے اُسے استاد، والدین، قریبی دوست، کتابیں اور گہرا مطالعہ تیار کرتا ہے۔ اچھے استاد کا میسر آنا خوش قسمتی ہوتی ہے اور اچھا استاد وہ ہوتا ہے جس کی فکر اور سوچ صحیح اور پختہ ہو، مطالعہ وسیع ہو اور جسے اپنے پیشے سے محبت ہو۔ سچ ہے کہ ایک ڈپٹی کمشنر نالائق ہو تو ضلع کا کچھ نہیں بگڑتا لیکن اگر استاد فکری انتشار کا شکار ہو تو وہ کم از کم 30نسلیں خراب کر جاتا ہے۔ صحیح معنوں میں استاد وہ ہوتا ہے جو اپنی شخصیت کا عکس اپنے شاگردوں میں اس طرح پیدا کرے کہ وہ اس کے فکری نمائندے بن جائیں اور انہیں کتاب و مطالعے سے عشق ہو جائے۔

آپ کو دانشوروں میں نظریاتی، مذہبی اور وطن کی محبت سے سرشار لکھاری بھی ملیں گے اور ایسے روشن خیال بھی نظر آئیں گے جو دین سے شاکی اور وطن کی محبت سے ماورا ہیں۔ وہ مذہب بارے تشکیک پھیلانا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور پاکستان کے حوالے سے کنفیوژن پھیلانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ علم سے کورے نوجوان ان کا ہدف ہیں جنہیں وہ تشکیک میں مبتلا کرکے گمراہی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ خورشید احمد یوسفی کی کتاب ’’قائداعظم کی تقاریر‘‘ میں وہ گفتگو موجود ہے جس میں قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل قائداعظم نے کہا تھا کہ کوئی مسلمان بھی قرآن مجید سے بالاتر ہو کر نہیں سوچ سکتا۔ یہی راست فکری اور یقین محکم قائداعظم کی کامیابی کا ضامن بنا۔

جب غازی علم الدین شہید کے ہاتھوں ملعون راجپال کے قتل کی خبر ان کی والدہ تک پہنچی اس وقت شہید کی والدہ گلی محلے میں ان کی سگائی (منگنی) کے لڈو بانٹ رہی تھیں۔ یہ خبر سن کر ان کے چہرے پہ تفکر کے بجائے نور کی روشنی پھیل گئی جب یہ خبر علامہ اقبال نے سنی تو فرمایا ’’ترکھاناں دا پتر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے رہ گئے‘‘۔ اس فقرے میں جہاں ترکھانوں دے پتر پر رشک اور کامیابی پر خوشی کا اظہار موجود ہے وہاں آخری الفاظ سے ایک حسرت بھی ٹپکتی ہے کہ اے کاش یہ کارنامہ میں نے سرانجام دیا ہوتا۔ یہ حسرت یا خواہش سچی راست فکری اور عشقِ رسولﷺ کی امین ہے۔ عشقِ رسولﷺ کے بغیر نہ ایمان مکمل ہوتا ہے نہ مسلمانی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ سچ پوچھو تو عشقِ رسولﷺ مسلمان کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور یہی وہ شعلہ ہے جو مسلمان کے قلب میں حرارتِ ایمانی قائم و دائم رکھتا ہے۔ اس جذبے اور تیقن کو سب سے پہلے علامہ کے والدین نے پیدا کیا اور بعد ازاں مولوی میر حسن مرحوم جیسے استاد نے پروان چڑھایا۔ مطلب یہ کہ مکتب کی کرامت حضرت اسماعیل علیہ السلام کو آدابِ فرزندی بھی سکھا دیتی ہے، مسلمان کو سچا مسلمان بھی بنا دیتی ہے اور فکری انتشار میں مبتلا کرکے گمراہی کی راہ پہ بھی ڈال دیتی ہے۔ ہندوستان کے صفِ اول کے وکیل محمد علی جناح خاص طور پر لاہور آئے اور مفت غازی علم الدین شہید کا مقدمہ لڑا۔ برطانوی حکومت علم الدین کو پھانسی دینے اور خود علم الدین شہادت کا رتبہ پانے کا فیصلہ کر چکےتھے۔ قائداعظم مقدمے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن حُبِ رسولﷺ کے تقاضے پورے کرکے سرخرو ہو گئے۔ علامہ اقبال حسرت سے ہاتھ ملتے رہ گئے لیکن غازی علم الدین شہید کی میت مبارک اپنے اثرورسوخ سے انگریز حکومت سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ورنہ حکومت نے غازی علم الدین شہید کو خفیہ انداز سے دفنا دیا تھا۔ ’’ترکھاناں دا پتر بازی لے گیا‘‘ کی حسرت کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے علامہ اقبال چند حضرات کے ساتھ قبر میں اترے اور غازی علم الدین شہید کو قبر کی گود میں لٹایا۔ یوں ان کی یہ حسرت شاید کسی حد تک تسکینِ قلب کا باعث بن گئی۔ قرآن مجید کا فرمان ہے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے اور زندہ ہیں۔ ایک زندگی عارضی ہے، فریبِ نگاہ ہے، بقول اقبالؒ بتان وہم و گماں میں سے ہے اور دوسری زندگی ابدی ہے، جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ صاحبان الحاد یہ تو مانتے ہیں کہ یہ زندگی فانی ہے اور فنا اس کا مقدر ہے لیکن دلوں پر لگے قفل اور ذہنوں پہ لگی مہر ابدی زندگی کے راز کو سمجھنے میں حائل ہو جاتی ہے۔

اسی مکتب فکر کے ایک سرخیل نے فرمایا ہے کہ صوفی جھوٹ ہے، اس سے بھوک اور غربت کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ مادہ پرست روحانیت میں دخل دے گا تو ظاہر ہے کہ اسے صرف جھوٹ ہی نظر آئے گا۔ وہ صوفی ہی کیا جو دنیاوی احتیاج، خواہش اور ہوس کو اپنا غلام نہ بنا سکا یا ان پر غلبہ نہ پا سکا۔ صوفی توکل کے عصا سے دنیا کے کھلونوں کو پاش پاش کرکے ذاتِ الٰہی میں گم ہو جاتا ہے بقول حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒصوفی اپنی طبیعت کو کدورتوں، کھوٹ، غیراللہ اور دنیا سے پاک کر لیتا ہے۔ صوفی کو سمجھنا ہے تو شیخ علی ہجویری کی کتاب کشف المحجوب کا بغور مطالعہ کرو جسے اگر خصوصی نیت سے بار بار پڑھا جائے تو ’’بےمرشد‘‘ کے لئے مرشد بن جاتی ہے۔ اور ہاں یہاں ایک اور وضاحت ضروری ہے بعض عالم و فاضل حضرات کشف المحجوب میں تحریر کردہ بعض واقعات یا تفصیلات پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی دنیائے تحقیق اس کا ثبوت نہیں پا سکی۔ ایک علم ہوتا ہے کتابی اور ایک علم ہوتا ہے کشفی ...کتابی علم مطالعے سے حاصل ہوتا ہے اور کشفی علم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی دین ہوتی ہے۔ جب کوئی سچا ولی اللہ لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کی تحریر دنیاوی اور کشفی علوم دونوں کا حسین امتزاج ہوتی ہے ۔ ایک بات بہرحال یاد رکھو کہ ولی اللہ کبھی جھوٹ نہیں لکھتا اور نہ ہی اس کا علم جھوٹا ہوتا ہے۔ حدیث قدسی کے مطابق یہ حضرات اس مقام پر فائز ہوتے ہیں جہاں اللہ پاک ان کے کان، آنکھیں، ہاتھ اور ٹانگیں بن جاتے ہیں تو پھر ان کے قلم سے غیر صحیح بات کیسے نکل سکتی ہے؟

تازہ ترین