• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آیئے منیر نیازی کی ایک غزل سے شروع کرتے ہیں:
دیتی نہیں اماں جو زمیں، آسماں تو ہے
کہنے کو اپنے دل میں کوئی داستاں تو ہے
یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیرؔ
پردہ سا کوئی میرے تیرے درمیاں تو ہے
غزل کاایک ایک شعر غور طلب ہے لیکن جس شعر نے خاص طور پر میری توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور جس پر واقعی بہت غور ہونا چاہئے وہ یہ ہے؎
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
کیا عمر بھر کا یہ سفر رائیگاں ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی ٹائی ٹینک جہاز ڈوب رہا ہے؟ اگر ڈوب رہا ہے تو پھر ہمیں کیا کرناچاہئے؟
منیرؔ ہی کا ایک اور شعر یادآ رہا ہے؎
تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
کیا ہمیں معلوم نہیں تھاکہ جو راستہ ہم نے چنا تھا، وہ غلط تھا؟ اگر اب آ کے ہوا تو پھراب ہم کیا کریں؟ منیر نے شاید یہ سفر ضیا الحق کے دور کے اقدامات اور اس کے نتیجے میں جو بارود کی فصل بو دی گئی اس کو دیکھ کر یہ شعر لکھے ہوں گے۔ وہ اتنا مایوس کیوں ہو گیا؟ کیا اس کی طرح ہر لکھنے پڑھنے والا اور ذی حس انسان مایوس ہو گیا؟ یا اسے ہو جاناچاہئے؟
میں نےآغاز میں ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کا ذکر کیا۔ یہ ذکر مجھے غازی صلاح الدین صاحب کے حوالے سے یادآیا۔ وہ کہتے ہیں کہ فلم ٹائی ٹینک میں جب جہاز ڈوب رہا تھا تو اس میں جہاں باقی لوگوں میں ہڑبونگ مچی ہوئی تھی اس کے میوزیشنز نے باقی لوگوں کو دیکھ کر اس ہڑبونگ سے پرے رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے ساز سنبھالے اور میوزک بجانے لگے۔ وہی مدھر دھنیں جو وہ سکو ن کے دنوں میں جب ٹائی ٹینک اپنے معمول کے سفر میں آگے بڑھ رہا تھا، وہ بجاتے تھے۔ کیا ہمیں بھی صرف اسی طرح اپنے روزمرہ کے کام سرانجام دیتے رہنا چاہئیں؟ کیاصرف آواز دینے سے کام چل جائے گا؟
آپ سوچ رہےہوںگے کہ ایسی مایوسی کی باتیں کیوں؟ تو مسئلہ یہ ہے بھائی کہ ایک عرصہ سے ہم پاکستان میں بپا زوال کے رونے رو رہے ہیں۔ ہمارے ایک بیوروکریٹ دوست کہتے ہیں کہ پہلے یہ حال ہوتا تھا کہ ایک سیٹ خالی ہوتی تھی تو اس کے لئے متبادل کے طور پر دس نام ذہن میں آتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ 10 سیٹیں خالی ہوتی ہیں اور متبادل کے طور پر ایک بھی نام سامنے نہیں آتا۔اب پنجاب ہی کو لےلیں۔ اگرقابلیت ہوتی تو وزیراعلیٰ پنجاب دس بارہ محکمے خود ہی سنبھال کر کیوں بیٹھے ہوتے؟ایک ایک وزیر کے پاس چار چار محکمے کیوں ہوتے؟ اور ان پر بھی اس کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں؟ سندھ کو لیں تو صورتحال اور خراب نظر آتی ہے۔ ایسی اوٹ پٹانگ کیبنٹ اور ایسا نااہل وزیراعلیٰ کیا سبھی لوگ سوال نہیں اٹھا رہے؟ اگر ان چنے ہوئے لوگوں میں اہلیت ہوتی تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔
کالجوںاور یونیورسٹیوں سے فا رغ التحصیل ہونے والے لوگوں اور اس وقت کے طالب علم حضرات کے بارے میں بھی ہم کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ آج ہی کے ایک سروے میں NUST کو دنیا میں 200 سے بھی کم درجے کی یونیورسٹی قرار دیا گیا ہے۔ اگر NUST اتنا نیچے ہے تو باقی کالجوں او ر یونیورسٹیوں کے حالات کیا ہوں گے؟ ہاں اگر ان طلبہ کو کسی چیز کے بارے میں علم ہے تو وہ نام نہاد مذہبی کتابچے اور معاشرتی علوم کے ایک دو رسالے ہیں۔ ان کو وہ اپنے علم کی بنیاد قرار دیتے ہوئے مسلسل بنیادپرستی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس سے ان کی کند ذہنی میں اور اضافہ ہورہا ہے۔ نتیجہ وہی کہ ہم سب سے بہتر قوم ہیں اور ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے۔ہماری مایوسی میں اضافہ یقیناً گزشتہ دنوں ہونے والے لاہورکے بم دھماکے اور اسلام آباد میں بعض مذہبی گروہوں کے دھرنے نے کیا ہے۔ خاص طور پر دھرنے کے اثرات بہت گہرے ہیں ۔ کیا ہم اب اسی طرح شدت پسندگروہوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہیں گے؟امریکہ کے صدر اوباما نے گزشتہ دنوں کینیڈا کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کو ایک خطرناک حد تک ناکام ہوتی ہوئی ریاست قرار دیا ہے۔ کیا ہمیں یورپی دنیا اور امریکی دانشوروں کے بیانات پر توجہ نہیں دینی چاہئے؟ اوباما کے منہ میں خاک مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ انتہاپسندی اور جاہلیت ہمیں کہاں لے جارہی ہے؟ اس پر ہمیں ضرور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ توجہ ہوگی تو منیر ایسے شاعر کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کہ
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
تازہ ترین