وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکا اور افغان حکومت کے درمیان پاکستان حصے دار یا ضامن نہیں، ہمارا کردار سہولت کار کا ہے۔
سینیٹ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم افغانستان میں بھارت کا کوئی سیکیورٹی رول نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کو افغانستان میں الجھا ہوا دیکھنا چاہتا ہے، نئی دہلی نے ہمیشہ ماحول خراب کرنے میں کردار ادا کیا۔
امریکا اور افغان طالبان کے معاہدے پر شاہ محمود قریشی نے کہاکہ یہ معاہدہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں، امریکا نے سلامتی کونسل سے توثیق کی یقین دلائی ہے، پہلے پانچ فوجی اڈوں سے انخلا ہو گا، مکمل انخلا میں 14 ماہ درکار ہوں گے، یہ افغانستان کے فیصلے ہیں،حق یہ ہے کہ وہی فیصلے کریں، افغانستان کے آگے کا راستہ کافی پیچیدہ اور دشوار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو خدشہ تھا کہ کہیں ہم دوبارہ نائن الیون کا شکار تو نہیں ہوجائیں گے، اعتبار کی اس کمی کو ختم کرنے میں وقت لگے گا، القاعدہ اور داعش کے قیدی بھی افغانستان کےلیے چیلنج ہیں۔
وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ طالبان، اشرف غنی اور عبداللّٰہ عبداللّٰہ کی اپنی اپنی سوچ ہے، افغان انٹیلی جنس کے تانے بانے کی اپنی الگ داستان ہے، امریکی اسٹیبلشمنٹ کی اپنی سوچ ہے جبکہ ایران پڑوسی اور تہران اور واشنگٹن کے تعلقات کشیدہ تھے اور رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی افغانستان سے سرحد لگتی ہے، اسے داعش سے خطرات ہیں، ہم داعش کو افغانستان میں مضبوط ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے، افغان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی چاہتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے واضح الفاظ میں کہا کہ آئندہ کسی عدم استحکام کی صورت میں شاید پاکستان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھاسکے گا، اگر افغانستان میں تشدد بڑھا تو پاکستان پر بھی اثر آسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں ایک طبقہ پاکستان کے بارے میں منفی تاثر رکھتا ہے، ہم طالبان امریکا مذاکرات کا حصہ ہیں نہ ہی ضامن ہیں، ساری ٹھیکیداری اور بوجھ پاکستان پر ڈالنا درست نہیں، ہم صرف سہولت کار ہیں، ہم پشتونوں کے علاوہ دیگر قومیتوں تک پہنچنا اور رابطہ کرنا چاہتےہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے ذمہ دارانہ انخلا ہونا چاہیے، ہم افغانستان کے ساتھ محفوظ اور ریگولیٹڈ سرحد چاہتے ہیں، یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، سب جانتے ہیں پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہوتی رہی ہے اور کون کرتا رہا ہے، پارلیمان کی رائے ہمارے لیے رہنمائی کا کام کرسکتی ہے، یکسوئی اور ہم آہنگی ہونا ہماری ضرورت ہے۔
شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے امن و استحکام سے کاسا 1000، تاپی گیس پائپ لائن مکمل کرنے میں مدد ملے گی، وہاں امن سے تجارت اور اقتصادی راہداری کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اس سے لاتعلق نہیں ہوسکتے، دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ شکوک و شبہات رہے ہیں، کابل کو کسی وہم کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہمارے دل صاف نہیں ہوں گے تو کوئی تیسری طاقت راستہ نہیں نکال سکتی، ماضی میں اس کا نتیجہ پاکستان اور افغانستان کو بھگتنا پڑا ہے، وہاں امن تب ہی آئے گا جب افغان دھڑوں میں مصالحت ہو گی۔
شاہ محمود قریشی نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے دہلی میں خون کی ہولی کے خلاف بیان کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ایران کا کشمیر کے معاملے پر موقف بھی حوصلہ افزا ہے۔