• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب کوئی شخص زیادہ بیمار ہو مگر ورثا پھر بھی اسے اسپتال لے جانے کے بجائے مستقل طور پر گھر پہ رکھیں تو اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ گھر والے اس کی بیماری یا درد کی شکایت کو سنی اَن سنی کر دیتے ہیں مگر جب مریض بہت زیادہ شکایت کرنا شروع کر دے تو بادل نخواستہ گھر والے مریض کو دوبارہ چیک اپ کی غرض سے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں تو ٹیسٹ کروانے کے بعد پتا چلتا ہے کہ مریض کی بیماری کم ہونے کے بجائے زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے۔ اور مریض کا رونا اور درد کی شکایت سب درست تھی تو پھر گھر والے اپنی عزت برقرار رکھنے کے لئے مریض کے علاج سے زیادہ تیمارداروں کی خاطر مدارت پر توجہ دینے لگتے ہیں تاکہ عزت بچی رہے۔ تو بس بلوچستان کی حالت بھی ایسے مریض جیسی قرار دی جا سکتی ہے جسے 18ماہ سے مختلف طریقہ علاج کے زیر اثر رہنے کے باوجود اس کے درد اور بیماری کی وجہ سے آہ و فغاں کو گیلپ سروے نے عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔ حالیہ گیلپ سروے میں موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر عوام کی رائے لی گئی۔ اس سروے کے سب سے تلخ اور کڑوے سچ کا اظہار بلوچستان سے آیا۔ جب 8فیصد کے مقابلے میں 76فیصد عوام نے حکومت کی کارکردگی پر بھرپور عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ بلوچستان کے عوام کی جانب سے اتنے شدید ردِعمل کی بہت سی وجوہات ہیں۔ غریب عوام جن مشکل حالات سے گزر رہے ہیں اسے آسان اور سادہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ روزگار کے مواقع محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر کچھ موجود بھی تھے تو وہ کرپشن اور اقربا پروری کی نذر ہو گئے۔ جعفرآباد سے موسیٰ خیل تک، چمن سے تربت تک سب سراپا احتجاج ہیں جس محکمہ میں بھی بھرتیاں کی گئی ہیں اسکے نتائج کے اعلان کے بعد اکثر اضلاع میں لوگ سراپا احتجاج بن گئے ہیں یا عدالتوں میں اس کو خلاف قانون قرار دے کر چیلنج کیا گیا ہے اور یہاں تک کہ وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم بلوچستان نے بھرتیوں کو غیرقانونی قرار دیا ہے لیکن ذمہ داروں کو سزا دینے کے بجائے پہلے سے بہترین پوسٹنگ دی گئی ہے کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ سابق حکومت کی کرپشن پر کارروائی تو دور اپنی نگرانی میں ہونے والی انکوائریوں کی فائل غائب کی جارہی ہیں۔ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے نام پر جو ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اس پر اپنا سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ تعلیم میں تو اتنی بری حالت ہے کہ تھوڑی بھی استطاعت رکھنے والے ماں باپ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ صحت کی صورتحال تو اس سے بھی بدتر ہے۔ پڑھے لکھے وزیراعلیٰ کی فہم و فراست کی یہ حالت ہے کہ دنیا کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ممالک بھی کورونا وائرس کو ایک عالمی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس سے پریشان ہیں جبکہ بلوچستان کی حکومت نے اس عالمی بلا کو پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی ٹھانی ہے شاید اس سوچ کے ساتھ کہ کورونا برف باری کی طرح چار دنوں کا مسافر ہے۔ ایجوکیشن اور صحت کے حوالے سے موجودہ حکومت سے سابقہ حکومت کا وژن کافی واضح تھا جبکہ موجودہ حکومت کا وژن اس سلسلے میں بہت مبہم ہے سابق حکومت جس کو موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ سابقہ کابینہ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ محکمہ صحت کے ٹیچنگ اسٹاف اور اسپتالوں کے پیرا میڈیکل اسٹاف کی بھرتی شفاف اور سیاسی دبائو سے باہر رکھنے کیلئے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جائے گی جبکہ موجودہ حکومت نے دس ہزار اساتذہ کی بھرتی کا عمل ایک غیرمعروف ٹیسٹنگ کمپنی سے کرایا جس کے رزلٹ کے بعد صوبے کے مختلف اضلاع میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ یہ اقدام موجودہ حکومت کا تعلیمی میدان میں ایک نسل کو تباہ کرنے جیسا عمل ہے۔ جس سابق حکومت کو موجودہ حکمران بدترین کہہ رہے ہیں ان بدترین سوچ والوں کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے پالیسی کافی واضح تھی۔ کرپشن کے ثبوت ہونے کے باجود حکومتی سطح پر معنی خیز خاموشی ہے۔

کورونا وائرس کے نام پر حکمرانوں کی پھرتیاں دیکھ کر بچپن کی سنی ایک کہانی یاد آگئی۔ جس میں جنگل کے تمام جانوروں نے بندر کو ڈاکٹر بننے کے لیے شہر بھیج دیا۔ بندر نے شہر میں پانچ سال موج میلے میں اڑا دیے۔ جب جنگل واپس آنے کے دن آئے تو بڑا پریشان ہوا لیکن پھر لومڑی نے تسلی دی کچھ نہیں ہو گا۔ ایک دن زیبرا بیمار ہوا تو بندر کو بلایا گیا۔ بندر نے اسے دیکھ کر ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔ کچھ دیر بعد زیبرا جب مر گیا تو بندر نیچے اترا اور کہنے لگا بس اللہ کی یہی رضا تھی۔ اسی طرح ہمارے حکمران ملیریا، ٹائیفائڈ، یرقان اور دست و پیچش جیسی عام بیماریوں کا علاج تو غریب عوام کو دے نہیں سکے اور چلے ہیں کورونا وائرس کو روکنے۔ فنڈز کے بے رحمانہ اور ظالمانہ استعمال پر ضرور کوئی آفت نازل ہونے والی ہے۔ ترقیاتی اسکیموں میں جس طرح کی کرپشن ہو رہی ہے اس کے لیے صرف کوئٹہ پیکیج کے گیارہ ارب کی فرانزک آڈٹ کر لی جائے۔ تو بہت سی رقم پنجاب کے بینکوں سے برآمد ہو گی لیکن فرانزک آڈٹ کون کروائے گا۔ گیلپ سروے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے محکمہ انفارمیشن کے کرتا دھرتائوں کی ایک میٹنگ کی اور فرمایا گیا کہ حکومت کے اچھے اقدامات کی صحیح تشہیر نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے سروے کے نتائج اس قدر مایوس کن ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ عوام کو سب پتہ ہے۔ اگر مزید کریدا گیا تو بڑی بدنامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی کبھار انجان رہنے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین