• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اضاخیل میں ڈرائی پورٹ کا قیام 36 سالہ دیرینہ مطالبہ شرمندہ تعبیر

صوبۂ خیبرپختون خوا کے دارالحکومت، پشاور کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے ۔جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ پشاور زمانۂ قدیم ہی سےنہ صرف کئی تہذیوں کا مرکز رہا، بلکہ ہندوستا ن اور وسطی ایشیاکے درمیان تجارتی گزر گاہ بھی تھا۔ایک جانب تجارت کی غرض سے ہندوستان جانے والے قافلے پشاور سے ہو کر گزرتے، تو دوسری جانب وسطی ایشیا سے آنے والےحملہ آوروں نے بھی ہندوستان فتح کرنے کے لیے اسی راستے کا انتخاب کیا۔ اور یوں اس شہر کی جغرافیائی حیثیت میں مزید اضافہ ہوتاچلا گیا۔ 

ہندوستان جانے والےتجارتی قافلے زیادہ تر درّۂ خیبر کی راہ داری استعمال کرکے پشاور میں اپنا پڑاؤ ڈالتے ۔ انگریزوں کےدَورمیں پشاور میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے ریلوے اراضی پر 3شیڈز قائم تھے، جہاں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہوتا تھا، مگر سمندر سے کافی دُور ہونے کے باعث شہرمیں ہمیشہ ایک جدیدڈرائی پورٹ کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ۔ جس کے لیے خیبر پختون خوا چیمبر آف کامرس ، فرنٹیئر کسٹمز ایجینٹس ایسوسی ایشن اور صوبے کی تجارتی و کاروباری شخصیات کی جانب سے کئی دَہائیوں تک جدّوجہد کا سلسلہ جاری رہا ۔

اضاخیل میں ڈرائی پورٹ کا قیام 36 سالہ دیرینہ مطالبہ شرمندہ تعبیر
ضیاالحق سرحدی

پھر 1986ء میں پشاور کینٹ اسٹیشن پر ایک عارضی ڈرائی پورٹ کی بنیاد رکھی گئی،جس کا مقصد صوبے میں تجارت کو فروغ دینا تھا۔ واضح رہے کہ موجودہ دَور میں لاہور، راول پنڈی، ملتان، فیصل آباد،سیال کوٹ، سمبڑ یال سمیت مُلک کے کئی اہم شہروں میں جدید سہولتوں سے آراستہ ڈرائی پورٹس قائم ہیں ۔کے پی کے میں تجارت بڑھانے کے لیےاورڈرائی پورٹس کی اہمیت کے پیشِ نظر،پشاور کی تاجربرادری کی جانب سے ماضی میں کئی مرتبہ حکومتوں سےجدید ڈرائی پورٹ کے قیام کا مطالبہ کیاگیا، لیکن ہربار نئے حیلے بہانے بنا کر اُن کی بات ٹال دی جاتی۔ 

مسلم لیگ(ن) کے دَورِ حکومت(1997-99ء )میں وزیرِ اعلیٰ، سردار مہتاب احمد خان نے پشاور میں زمین کی کمی کے باعث اضاخیل (پیر پیائی نوشہرہ) میں 64ایکڑ اراضی پر نئے ڈرائی پورٹ کے قیام اور ڈرائی پورٹ ٹرسٹ کے لیے2کروڑ روپے کا اعلان کیا، لیکن مسلم لیگ کی حکومت کو فارغ کردیا گیا ، یوںنئے ڈرائی پورٹ پر عملی کام شروع ہو سکا اور نہ ہی پیسوں کی اَدائی ہوئی۔ اُس کےبعد جب صوبے میں متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت قائم ہوئی، تب بھی ڈرائی پورٹ کے قیام کی بات زیرِ بحث آئی، مگر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔2008ء کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے دَورِ حکومت میں اُس وقت کےوزیرِ اعلیٰ ،امیر حیدر خان ہوتی کے سامنے بھی پورٹ کے قیام سے متعلق بات کی گئی، جس پر انہوں نے3کروڑ روپے دینےکا اعلان کرتے ہوئے ،ڈرائی پورٹ کی جلد تکمیل کا وعدہ بھی کیا، مگر’’وہ وعدہ ہی کیا،جو وفا ہو گیا‘‘ کے مصداق، اُن کا وعدہ بھی پورا نہ ہوسکا۔ 

ڈرائی پورٹ کے قیام کے حوالے سے اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا سابق وزیرِ اعلیٰ، پرویز خٹک کی حکومت میں بھی کرنا پڑا۔ البتہ مسلم لیگ (ن) کی آخری دَورِ حکومت میں مُلک بھر میں ڈرائی پورٹس کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کا عمل شروع ہوا ،تو اس کے تحت نوشہر ہ کے علاقے، اضاخیل کےلیے بھی رقم مختص کی گئی، مگر بوجوہ یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔بعد ازاں، 10جنوری 2020 ء کو وزیرِ اعظم پاکستان ،عمران خان نے پشاور سے32کلو میٹر دُور ضلع نوشہرہ کے علاقے اضاخیل میں 28ایکڑ رقبے پر محیط ڈرائی پورٹ کا افتتاح کیا ، جس پر لاگت کا تخمینہ 50 کروڑ روپے ہے۔

ڈرائی پورٹ کے پلیٹ فارم کی لمبائی ایک لاکھ 37ہزار فیٹ ، جب کہ 150ٹن کانٹے کی گنجائش موجود ہے۔جس میں وَن ونڈوآپریشن،کسٹمز ڈیوٹی کے نفاذ اور افغان ٹرانزٹ ٹرید گیٹا (گُڈز اِن ٹرانزٹ ٹو افغانستان)کے لیے خصوصی ڈیسک بھی موجود ہے۔ اس منصوبے سے در آمدات،بر آمدات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔نیز،کاروباری و تجارتی سرگرمیوں اورکارخانوں کے لیے خام مال کے علاوہ، ری کنڈیشنڈ گاڑیاں اور دیگر سامان بھی ریلوے کے ذریعے ڈرائی پورٹ سے آسکے گا۔

پاکستان میں ڈرائی پورٹس کا نظام، پاکستان ریلوےنےمتعار ف کروایا تھا، جس کا مقصد تاجر برادری کو ریلوے کے ذریعے تجارتی سہولتیں فراہم کرنااور کراچی پورٹ سے بوجھ کم کرنا تھا۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ خیبرپختون خوا کے علاوہ پاکستان کے تمام صوبوں میں جدید سہولتوں سے آراستہ ڈرائی پورٹس موجود ہیں، لیکن 1986ء میں پشاور میںعارضی طور پر بننے والا ریلوے ڈرائی پورٹ ، 36سال بعد بھی عارضی بنیادوں ہی پر کام کر رہا ہے۔ صدر ریلوے اسٹیشن ، پشاور کی حدود میں واقع چھوٹا ڈرائی پورٹ افغانستان اور سینٹرل ایشیاکے موجودہ تجارتی حجم کا بوجھ برداشت نہیں کرپا رہا، یہی وجہ تھی کہ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری، پشاور اور فرنٹیئر کسٹمز ایجینٹس ایسوسی ایشن کی جانب سےبارہا وفاقی حکومت سے اضاخیل ڈرائی پورٹ کی تعمیر کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔

خطّے کی علاقائی تجارت میں پشاور کو گیٹ وے کی حیثیت حاصل ہے،جس سے وسطی ایشیا تک تجارت ہوتی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں، لہٰذا مستقبل میں افغانستان میں بحالیٔ امن کے بعد اس گیٹ وے سے استفادہ کیا جاسکے گا۔ اس ضمن میں اضاخیل ڈرائی پورٹ اہم کردار ادا کرے گا ۔ یہ ایک وسیع ڈرائی پورٹ ہے، جہا ں سیکڑوں کنٹینرز ایک ہی وقت میں کھڑے ہو سکتے ہیں ، شہر سے باہر ہونے کی وجہ سےیہ 24گھنٹے آ پریشنل رہ سکے گا۔ اس ڈرائی پورٹ کے کُھلنے سے پشاور کینٹ ڈرائی پورٹ کا بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔ 

یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اضاخیل ڈرائی پورٹ کی کام یابی کے لیے افغانستان ، پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (APTTA) میں ترمیم کی بھی فوری ضرورت ہے کہ جس کی وجہ سے 70فی صد ٹرانزٹ ٹرید کا کاروبار چابہار، بندر عباس(ایران) منتقل ہوگیا ہے۔’’ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے ‘‘پر نظرِ ثانی سےماضی کی طرح پاک ، افغان باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا اوراس اقدام سے پاکستان ریلوے کوفریٹ کی مَد میں سالانہ6 سے8 ارب روپے مل سکتے ہیں۔اگر وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے فوراً بعد جامع منصوبہ بندی کر کے اس پر عمل درآمد کیا جا تا،تو آج پشاور میں ایک کے بجائے دو ماڈل ڈرائی پورٹس ہو تے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ دست یاب وسائل قومی مفاد میں استعمال کر نے کے بجائے، ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

یوں ادارے مزیداداروں (برائے نام)میں تبدیل ہو جا تے ہیں، اس سلسلے میں پشاور میں ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے کچھ بھی نہیں کیا۔ المیہ یہ ہے کہ 36سالوں میں پشاور میں جدید سہولتوں سے آراستہ ایک ڈرائی پورٹ بھی قائم نہ ہو سکا،جس کی ذمّے داری صوبے کےوفاقی وزرااور بیورو کریٹس پر عائد ہوتی ہے۔ ہر دَور کی وفاقی حکومتوں نےدیگر صوبوں میں ایکسپورٹ کے فروغ کے لیےکئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے، لیکن آج تک کے پی کے میں تجارت کے حوالے سےکوئی قابلِ ذکر ترقیاتی منصوبہ شروع نہ ہوسکا ۔ 

اگر وفاقی حکومت چاہتی تو ای ڈی ایف (ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ) سے دیگر شہروں کی طرح پشاور میں بھی جدید سہولتوں سے آراستہ ڈرائی پورٹ بناسکتی تھی ،جس سے صوبے کی برآمدات اور زرِمبادلہ میں اضافہ ہوتا۔یاد رہے،ماضی میں خیبر پختون خواکی ایکسپورٹ ،( ماربل، فرنیچر، ہینڈی کرافٹ، قالین، شہد،جام، ماچس سمیت تما م اشیا )ٹرکوں کے ذریعے لوڈ ہوکر کراچی جاتی اور پھرکراچی سے کسٹم کلیئرنس کے بعد بیرونِ ملک ایکسپورٹ کی جاتی ۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) نے اضاخیل ریلوے ڈرائی پورٹ کے افتتاح پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ’’اضاخیل ریلوے ڈرائی پورٹ کی تعمیر میں ڈیڑھ سالہ تاخیر کی ذمّے دار موجودہ حکومت ہے ،عمران خان اور شیخ رشید ہمارے منصوبوں پر تختیاں لگا کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔‘‘ پی ایم ایل (ن) کے رہنما،خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ ’’ مسلم لیگ (ن) نےاپنے دَور میں ریلوے ڈرائی پورٹس کی تعمیر ِنو اور اَپ گریڈیشن کے منصوبوں کی بنیاد رکھی اوراضا خیل نوشہرہ ریلوے ڈرائی پورٹ کا منصوبہ میرے دَور میں 50کروڑ روپےکی لاگت سے شروع کیا گیا ،جس کی فعالیت سے پشاور میں ہیوی ٹریفک کا دباؤ کم ہوگا۔ اس منصوبے سے ریلوے کو فریٹ سیکٹر میں نئی کام یابیاں ملیں گی اور یہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں اضافےکا بھی سبب بنے گا۔

یاد رہے، اضاخیل ڈرائی پورٹ کا نوّے فی صدکام مسلم لیگ (ن) کے دَورِ حکومت میں مکمل ہوا۔‘‘پاکستان ،افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے بانی او ر آل پاکستان کسٹمز ایجینٹس ایسوسی ایشن، کراچی کے وائس چیئرمین اورپاک ،افغان تجارتی اُمور پر سند کی حیثیت رکھنےوالے،ضیا الحق سرحدی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’پاکستان بھر کے ایکسپوٹرز جب اپنی مصنوعات برآمد کرتے ہیں تووہ اعشاریہ 25فی صد ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج کے طورپر حکومت کو ادا کرتے ہیں، جو ایک اندازے کے مطابق22ارب روپے بنتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد ایکسپورٹ کے فروغ کے لیے فنڈ مختص کرناہے،لیکن آج تک اس فنڈ سے خیبرپختو ن خوا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا، جب کہ سندھ اور پنجاب میں اس فنڈ سے ایکسپورٹ کی بڑھوتری کے لیےڈسپلے سینٹرز، کولڈ اسٹوریج کے قیام کے علاوہ بھی کئی اہم کام ہوئے، جس سے ان کی بر آمدات میں اضافہ ہوا۔

اگر ہمارے صوبے میں بروقت ڈرائی پورٹ بن جاتا ،توہماری معیشت پر بھی اس کےمثبت اثرات مرتّب ہوتے، لیکن بد قسمتی سے اس صوبے اور اس کے کاروباری طبقے کے ساتھ ہمیشہ ہی سوتیلوں والا سلوک ہی کیاجاتا ہے۔ جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی قوانین کے تحت جس مُلک میں سمندر نہیں ہوتا، اُسے اُس کاہم سایہ مُلک تجارت کے لیے راہ داری کی سہولت فراہم کرتا ہے، چناں چہ 1965ء میں پاکستان اور افغانستان کے مابین افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ طے پایا، جس کے تحت 45سال تک (2010ء )تک افغان ٹرانزٹ مال بیرونِ مُلک سے کنٹینرز میں کراچی پہنچتا،پھر ڈی اسٹیپ ہوکرپاکستان کسٹم کی نگرانی میں ریلوے بوگیوں میں کراچی سے پشاور اور کراچی سے چمن جاتا ۔ ہفتے میں3مرتبہ 72ریلوے ویگنزلوڈ ہوتی تھیں۔

یہ کاروبار 45سال تک توخُوش اسلوبی سے چلتا رہا ، اس عرصے میںکوئی چوری چکاری ہوئی، نہ کوئی بوگی غائب ۔ ایک اندازے کے مطابق اُس زمانے میں پاکستان ریلوے اور این ایل سی کی کرائے کی مَد میں سالانہ6سے8ارب روپے آمدنی ہوتی تھی۔ 2010ء میں امریکی دباؤ پر جو نیا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ ہوا ،اس کے تحت لُوز کارگو، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز کو پاکستان میں کھولنے ،ٹرانس شِپ مینٹ اور پارٹ شِپ مینٹ پر پابندی اور ٹرانزٹ ٹریڈ دستاویزات میں تصحیح اور ترمیم کی گنجایش بھی ختم کر دی گئی۔ ان پابندیوں کی وجہ سے افغان ٹرانزٹ کی زیادہ تر تجارت بندر عباس اور چاہ بہار بندرگاہ منتقل ہوگئی۔ 

یوں پاکستا ن کوکرائے کی مَد میں اربوں روپے کا نقصان اُٹھاناپڑ رہا ہے۔ اس لیے حکومتِ وقت کو چاہیے کہ اس معاہدے میں فوری ترمیم کرےکہ اگر یہ معاہدہ پاکستان کے حق میں ہوتا، تو اس سے ہمیں نقصان نہیں فائدہ حاصل ہوتا۔ ‘‘سرحدی کا مزید کہنا تھا کہ ’’صوبۂ خیبر پختون خوا ، سمندر سے کافی دُور ہے، قیامِ پاکستان کے بعد ہماری واحد بندر گاہ، کراچی پورٹ تھی۔ جس سے پورے مُلک کی بزنس کمیونٹی استفادہ کرتی ۔ آج ،تاجر برادری اور کاروباری افراد اضاخیل ڈرائی پورٹ کے قیام سے مطمئن اور خوش تو ہیں، مگربدقسمتی سے اس منصوبے کا افتتاح روایتی انداز کےبجائے جلسےکی صُورت کیاگیا،جس میں بزنس کمیونٹی تو کیا، ڈرائی پورٹ سے متعلقہ کاروباری افراد کی شرکت تک ممکن نہ ہوئی۔

بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو اضاخیل ڈرائی پورٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے جلسہ گاہ جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔بہر حال، ڈرائی پورٹ کا قیام صوبے کی بزنس کمیونٹی کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا، جو اللہ اللہ کرکے پورا ہوا۔ لیکن ڈرائی پورٹ سے خاطر خواہ نتایج اُسی صورت حاصل ہو سکیں گے، جب افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے 1965ء میں ہونے والے معاہدےکو مِن وعن تسلیم کرکے اس پرعمل درآمد کیا جائے۔‘‘

تازہ ترین