دورِحاضر میں بچّوں کے نفسیاتی اور جذباتی مسائل بہت بڑھ گئے ہیں، جن میں سے ایک اہم مسئلہ ’’تنہائی‘‘بھی ہے۔یوں تو تقریباًسب ہی افراد ہفتے یا مہینے میں کبھی کبھار خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور اس کی کئی وجوہ بھی ہوسکتی ہیں، لیکن اگر تنہائی کا احساس مستقل ہوجائے یا یہ کیفیت طویل عرصے تک برقراررہے، تو سمجھ لیں کہ اب تنہائی ،تنہائی نہیں رہی،بلکہ ذہنی بیماری بن چُکی ہے۔ یاد رکھیں،جو بچّے یا بالغ، خود کو تنہا محسوس کرتے اور ہجوم سےالگ تھلگ رہتے ہیں، وہ اندر سے مغموم اور مایوس ہوتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی بھی بہت کم پائی جاتی ہے اور وہ خود آگے بڑھ کر کوئی بھی کام کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔نیز، ایسے افراد کو محافل میں پسندبھی نہیں کیا جاتا کیوں کہ وہ اپنے آپ ہی میں گم رہتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر دَس میں سے ایک بچّہ تنہائی کا شکار ہے،جس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔جیسے اگر بچّہ اکلوتا ہو اور والدین کام پر چلے جائیں،توان حالات میں بچّہ اسکول سے آنے کے بعد سارا دِن گھر پر تنہا رہتا ہے یا اگر کوئی خادمہ وغیرہ بھی ہو، تو وہ اس پروالدین کی طرح توجّہ نہیں دیتی۔پھردیکھا گیا ہے کہ کئی مائیں پورا وقت گھر پر رہنے کے باوجود بھی اپنے بچّوںپر توجّہ نہیں دیتیں۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلارہتی ہیں کہ بچّے کے کھانے پینے کا بروقت انتظام کردینا ہی کافی ہے۔
حالاں کہ جذباتی ضروریات بھی بےحد اہم ہیں کہ جب کسی بچّے کی جذباتی ضروریات پوری نہیں ہوتیں یعنی اسے اپنی والدین، خاص طور پر ماں کی توجّہ نہیں ملتی، تو وہ احساسِ تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔اسی طرح بعض والدین بچّوںکو معیاری تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اسکول ہی کے زمانے سے ہاسٹلز وغیرہ میں بھیج دیتے ہیں،تو ایسے بچّے بھی عمومی طور پرتنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ہاسٹلز میں رہنے والوں میںعام بچّوں کی نسبت تنہائی کی شرح زیادہ بُلند ہے۔
نیز،وہ دیگر نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرتے ہیں،لہٰذا والدین کو چاہیے کہ معیاری تعلیم کا خواب پورا کرنے کے لیے اپنے بچّے کی شخصیت اور زندگی سے نہ کھیلیں۔نیز، بعض اسکولوں کا ماحول بھی اس انداز سے تشکیل پاتا ہے کہ وہاں زیرِ تعلیم بچّے اپنے ہم جماعتوں کو اپنا دوست بنانے اور اُن سے کھیلنے کودنے کی بجائے اپنی نشستوں پر چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس جابرانہ ماحول کو"Discipline"کا نام دیا جاتا ہے۔ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والے بچّے سخت مزاج اور آدَم بے زار ہوجاتے ہیں، کیوں کہ جو’’ دوست بنانے کا ہنر ‘‘سیکھنے کے دِن تھے، اُن میں اُنھیں موقع ہی نہیںدیاگیا۔
علاوہ ازیں،بچّے تب بھی تنہائی کا شکار ہوسکتےہیں، جب انھیں کسی وجہ سے اپنا شہر یا مُلک چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانا پڑے۔ عموماً والد کا تبادلہ ایک سے دوسرے شہر ہوجاتا ہے یا پھر پوری فیملی ہی کسی دوسرے مُلک منتقل ہوجاتی ہے،توایسے میں بھی بچّوںکے لیے نئی جگہ، نیا ماحول اور نئے لوگ قابلِ قبول نہیں ہوتے۔ اُن کے پُرانے دوست اُن سےدُور جاتے ہیں، جو اُن کے لیےاُس عُمر کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ نئے علاقے میں منتقلی کے بعد وہاں دوست بنانے اور جان پہچان کرنے میں بہرکیف وقت تو لگتا ہے،مگر افسوس کہ اس دوران عموماًبچّے تنہائی کا شکار جاتے ہیں۔اسی طرح جو والدین اپنے بچّوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں کہ کہیں وہ کسی غلط صحبت میں نہ پڑجائیں،تودرحقیقت وہ بھی ان کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔
بچّے چھوٹی عُمر میں کھیلنا کودنا اور دوست بنانا چاہتے ہیں، لیکن والدین کی قدغنیں اور بات بات پر روک ٹوک اُنھیں ان کی یہ فطری ضرورت پوری نہیں کرنے دیتی،لہٰذا ایک وقت آتا ہے کہ بچّہ اپنی دُنیا میں مگن ہوجاتا ہے اور اسکول، کالج، یونی ورسٹی اور دفتر میں بھی دوسروں سے کٹ کر رہتا ہے۔والدین کی علیٰحدگی ،چاہے طلاق یا خلع کی صُورت ہو بچّہ ماں کے پاس رہے یا باپ کے، ہر دو صُورتوں میں اس کی نگرانی اور حفاظت عام حالات سے کہیں بڑھ کر کی جاتی ہے۔ بچّہ اپنی اس نگرانی سے خود کو قید میں محسوس کرتا ہے اور نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے دُور بھاگنے لگتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی صُورتِ حال میں کیا کیا جائے، تو اپنے بچّوں کواپنے ہم عُمر ساتھیوں سےدوستی کرنا سکھائیں، جس کی ابتدا ہم جماعتوں، رشتے داروں اور محلّے کے بچّوں سے کی جائے۔اگر آپ خود تنہائی کا شکار ہیں، تو اپنے آدم بے زار مزاج میں تبدیلی لائیں۔اس ضمن میں خود کو اردگرد کے لوگوں سے ملنے پر اُکسائیں۔ روزانہ کوئی ایسا کام کریں،جس کےلیے آپ کو گھر سے باہر جانا پڑے۔ مثلاً صُبح کی سیر، پالتو جانور کو گھمانا یا کسی کلب کی ممبرشپ وغیرہ لے لیں۔ اپنے کزنز اور ہم جماعتوں کو روزانہ فون کریں۔ اگر ایک دِن میں ایک فون کریں گے، تو ایک مہینے میں تقریباًتیس دوستوں اور کزنز کو فون کرلیں گے۔
نئے دوست ضرور بنائیں، مگر پُرانے دوستوں کے ساتھ بھی کبھی کبھار کسی تفریح کے لیے ضرور جائیں۔ مثلاً کھانا کھانے یا پھر کسی پارک وغیرہ میں چلے جائیں۔کوئی نیا مشغلہ اختیار کریں اور اُس میں مہارت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر ہاکی، کرکٹ، شطرنج وغیرہ۔ لیکن جو افراد پہلے ہی سےیہ کھیل کھیل رہے ہوں، اس بات کا جائزہ لیں کہ وہ کیسے کھیلتے ہیں۔ دوسروں کی حرکات و سکنات اور احساسات پر غور کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ کہیںآپ کا کوئی دوست یا ہم جماعت پریشان تو نہیں ۔ اگر ہے، تو اس سے بات کریں۔اگر بچّہ کسی بھی وجہ سے اسکول نہیں جا رہاہو(مثلاًبخار وغیرہ ہے) ،تو والدین کو چاہیے کہ اس کی ٹیچر سے بات کروائیں کہ اس طرح کے اقدامات بچّوں میں تنہائی کا احساس پنپنے نہیں دیتے۔
(مضمون نگار، فلاحی تنظیم ’’ٹرانس فارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی‘‘ کے بانی ہیں اور گزشتہ پچیس برس سے پاکستان، کینیڈا سمیت دیگر مُمالک میں ،خاص طور پر ذہنی صحت کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں)