ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں کرپشن بڑھی ہے۔ تاہم، اس رپورٹ پر حیرت اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ یہ مفروضوں پر مبنی ہوتی ہے اور دُنیا کا کوئی اخبار اور ٹی وی چینل اس کی خبر تک نشر نہیں کرتا۔ البتہ پاکستان میں مفروضوں پر مبنی ایسی رپورٹس پر سیاست چمکائی جاتی ہے۔ پھر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اپنی رپورٹ میں یہ بھی نہیں بتاتی کہ اگر سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن میں اضافہ نہ ہو، تو طاقت وَر ممالک ترقّی ہی نہیں کر سکتے اور اگر کرپشن سِرے سے ختم ہو جائے، تو سرمایہ دارانہ نظام ہی نیست و نابود ہو جائے ۔ یاد رہے کہ اس مؤقف کی تصدیق سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے معیشت دان، لارڈ کینز نے 1945ء میں کی تھی ۔جب بریسٹن وُڈ کے تحت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی تشکیل ہو رہی تھی، تو انہوں نے سرمایہ داری کی نئی کروٹ کو رحم دل بنانے کے لیے تجاویز بھی دی تھیں، لیکن عالمی سرمایہ داروں، اجارہ داروں اور طاقت وَر ممالک نے ان کی سُنی ان سُنی کر دی۔ تاہم، لارڈ کینز اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ترقّی کی قوّتوں کو آگے بڑھانے کے لیے بدی کی قوّتوں کو زیادہ سے زیادہ منظّم کرنے کی ضرورت ہے۔
مثلاً، لالچ ایک بُرائی ہے اور جب تک سرمایہ دار یا اجارہ دار دولت کا بے پناہ لالچ نہیں رکھتا، وہ دولت اکٹّھی کر کے مزید صنعتوں میں سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ اس بات کی تصدیق مستند ادارے، آکسفام کی حالیہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق دُنیا کے دو ہزار امیر ترین سرمایہ داروں کی مجموعی دولت، دُنیا کی 4ارب آبادی کے پاس موجود دولت سے زیادہ ہے۔ لارڈ کینز مزید کہتے ہیں کہ لالچ کے بعد حسد بھی ایک بُرائی ہے اور جب تک سرمائے کی تشکیل کے لیے ایک صنعت کار اپنے حریف کے مقابلے میں بہتر معیار پیش کر کے اسے صنعتی میدان سے مار نہیں بھگاتا، وہ جدّت میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اب سُود کی بات کرتے ہیں۔ گرچہ ہر ذی نفس جانتا ہے کہ سودی نظام کا نفاذ، اللہ سے جنگ کے مترادف ہے، لیکن اس کے باوجود سرمائے کی تشکیل ہی سود پر ہوتی ہے۔ پاکستان کا ہر معیشت دان اور صنعت کار یہ کہتا ہے کہ سود کی موجودہ شرح (13.25فی صد) بہت زیادہ ہے اور اگر اسے کم از کم3فی صد کیا جائے، تو ہر صنعت کار کو قرض لینے میں آسانی ہو گی۔ یورپ کے ایک مشہور فلسفی، برٹرینڈ رسل کا کہنا ہے کہ ’’جنگ، ابلیس کے گلشن کا آخری پُھول ہے۔‘‘ باالفاظِ دیگر، اسلحے کی فروخت میں کمی ہو یا دُنیا میں سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہو، جنگ اس نظام کی آخری بَدی ہے، جس کے بعد طاقت وَر ممالک نئے سِرے سے سام راجی قوّتوں کو ترتیب دیتے ہیں۔ مثلاً، دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سلطنت، جس کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا، ڈُوب گئی اور پھر اس کی جگہ امریکی سام راج نے لے لی۔
یہی وجہ ہے کہ اس نظام کے داعی یہ کہتے کہ ’’خیر صرف منظّم بدی ہی سے برآمد ہو سکتی ہے۔‘‘ لارڈ کینز سے بہت پہلے کارل مارکس نے اپنے معاشی فلسفے میں یہ تاریخی فقرہ کہا تھا کہ ’’مارکیٹ، بَدیوں کی غلاظت کا ایسا ڈھیر ہے، جس میں غریب کے لیے آسودگی تلاش کرنا بے سود ہے۔‘‘ حال ہی میں روزنامہ جنگ میں یہ خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی کہ ’’اگر مَنی لانڈرنگ ختم ہو گئی، تو برطانیہ کے سب بینک بیٹھ جائیں گے اور دُنیا معاشی بُحران کا شکار ہو جائے گی۔‘‘ یہ بات واضح و عیاں ہو چُکی ہے کہ تیسری دُنیا کی کرپٹ مافیاز دولت سمیٹ کر، مغربی بینکس اور اُن کی ’’محفوظ جنّتیں‘‘ غیر قانونی کالے دھندے کو فروغ دے کر اور غریب ممالک کو ایک ڈالر قرض دے کر 14ڈالرز اینٹھ لیتی ہیں۔ پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ ان کرپٹ ترین ترقّی یافتہ ممالک پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، جب کہ پاکستان جیسے کئی ممالک پر مَنی لانڈرنگ کا الزام عاید کر کے انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔
غریب ممالک کا قصور یہ ہے کہ ان کی اشرافیہ اور حُکم ران مروّجہ عالمی نظام کا حصّہ بن کر مَنی لانڈرنگ کرتے ہیں اور جب مُلک خسارے میں ڈُوب جاتا ہے، تو پھر منہگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں غریب کا زندہ رہنا دُشوار ہو جاتا ہے۔ نیز، ایسے ممالک کے لیے آئی ایم ایف کا نُسخہ غریبوں اور سفید پوشوں کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ بد قسمتی سے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان کی معیشت قرضوں پر استوار اور مختلف بُحرانوں کی شکار ہے۔ مال دار طبقہ انکم ٹیکس ادا نہیں کرتا اور دستاویزی معیشت کے حامل صنعت کار اور تاجر بھی اس سے انکاری ہیں۔
واضح رہے کہ سرمایہ دارانہ نظام صرف اور صرف ٹیکس کے بہتر نظام ہی سے آگے بڑھتا ہے، وگرنہ آئی ایم ایف کا نُسخہ چھوٹے طبقات کا زندہ رہنا مُحال کر دیتا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، باقر رضا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’دُنیا بھر کی معاشی کُتب میں یہ درج ہے کہ جہاں منافع ہو، وہاں ٹیکس کا نفاذ ہوتا ہے۔‘‘ تاہم، جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ ’’ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں آئی ایم ایف کی ہدایات پر بجلی، گیس اور تیل پر ٹیکسز بڑھا کر نرخوں میں اضافہ کیا جاتا ہے؟‘‘ تو انہوں نے کوئی تسلّی بخش جواب دینے کی بجائے دستاویزی معیشت کے نفاذ کے لیے اپنی کوششوں کے تناظر میں ردِ عمل ظاہر کیا۔ آج یوٹیلیٹیز کی قیمتوں میں اضافے، چاروں صوبوں میں بیڈ گورنینس اور مافیاز نے نچلے درمیانے طبقے، سفید پوشوں اور غریبوں کا وہ حال کر دیا ہے کہ اگر مُلک میں شعوری سیاست عام ہوتی، تو فرانس کی طرز کا انقلاب پاکستان میں رُونما ہوچُکاہوتا۔ آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے عوام دشمنوں نے گیس کی قیمت میں 214فی صد اور بجلی کی قیمت میں 35فی صداضافہ کر کےاور پیٹرول کی قیمت 80روپے فی لیٹر سے117روپے فی لیٹر کر کے غریبوں سے ایک وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے، جب کہ دوسری جانب کراچی سے ہُنزہ تک گاڑیاں ہی گاڑیاں اور ریستوران ہی ریستوران نظر آتے ہیں، جن میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔
روزنامہ جنگ کے کالم نگار، آصف علی بھٹّی نے گزشتہ 72برس میں مافیاز کے ہاتھوں معیشت کی تباہی کو بخوبی چند سطروں میں بے نقاب کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ میرا مُلک ایسا بد قسمت مُلک ہے، جہاں طرح طرح کے سیکڑوں مافیاز نظامِ زندگی میں مضبوطی سے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مافیاز کا ہر دَور کے حُکم رانوں سے بہت قریبی اور مضبوط گٹھ جوڑ ہے۔ تازہ ترین کام یاب واردات اسٹاک اور فلور مافیاز نے کی اور بڑے زمین دار، وزیرِ خوراک کی ناک کے نیچے ہوتی واردات کی تیاری کی کسی کو بُو تک نہ آئی۔ پھر دُنیا نے دیکھا کہ 70فی صد سے زاید قابلِ کاشت زمین کے مالک اور دیگر اجناس میں خود کفیل مُلک کے بد قسمت باسی آٹا ڈھونڈتے در بدر نظر آئے۔
المیہ یہ بھی دیکھا کہ 181ڈالرز فی ٹن گندم برآمد کی گئی اور 227ڈالرز فی ٹن اب درآمد کی جا رہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے مال داروں نے وزیرِ اعظم کو اپنے شکنجے میں خُوب کَس لیا ہے۔ پٹوار، بیورو کریسی اور عوام دشمن اشرافیہ کے دَور میں پاکستان کے اقتصادی اعصاب کی توانائی میں جس شرح سے گزشتہ 30برسوں میں کمی واقع ہوئی ، اس سے عوام کے دُکھوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔‘‘ تاریخی طور پر اگر وفاق اپنی سیاسی و اقتصادی افادیت ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے، تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وفاقی فکر و عمل صحت و توانائی سے عاری ہے۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق گریز قبائلی سرداروں اور جاگیر داروں کے فکری طرزِ عمل کا مطالعہ کریں، تو مُلکی حالات دانستہ طور پر خراب کیے جانے کا مقصد بھی یہی نظر آتا ہے کہ اشرافیہ سے جُڑے حُکم ران طبقے اور مافیاز نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ پاکستان کے عوام کو ذہنی و جسمانی طور پر اتنا کم زور کر دیا جائے کہ جاگیر داروں کے کٹھ پُتلی بھونڈے جمہوری نظام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جا سکے اور اپنی اس کوشش میں مذکورہ طبقات کام یاب نظر آتے ہیں۔ جو طبقات گزشتہ 72برسوں سے ناکارہ نظام سے زبردست فائدہ اُٹھا رہے ہیں، وہ کسی بھی کارآمد نظام کےخلاف صف آرا ہوں گے اور کم زور حکومت کو گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے رہیں گے۔
ایک اور بُحران، غالباً جس سے سبھی حُکم ران لاعلم رہے، وہ انرجی سیکوریٹی کو درپیش خطرہ ہے۔ تاہم، اس سنجیدہ مسئلے پر کبھی میڈیا یا پارلیمان میں بھی بحث نہیں ہوئی۔ مغربی میڈیا کا مؤقف ہے کہ 2020ء میں پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر کھڑے نظر آتے ہیں، جب کہ ایسی صورتِ حال میں پاکستان کا دارومدار درآمدی تیل پر ہے۔ یاد رہے کہ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران بھارت نے اٹک ریفائنری اور بندرگاہ پر حملے کی ناکام کوشش کی تھی۔ بعض مستند ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان تیل اور پٹرولیم مصنوعات کے ذخائر میں اس قدر خود کفیل نہیں ، جتنا حالتِ جنگ میں کسی مُلک کو ہونا چاہیے۔ مثلاً، امریکا کے پاس جنگ کی صُورت میں تیل کا 90روز کا ذخیرہ موجود ہے۔ دوسری جانب بھارت نے حالتِ جنگ کے لیے 12دن کے ذخائر محفوظ کر رکھے ہیں، البتہ بھارتی ریفائنریز کے آپریشنل ذخائر 65روز کے لیے کافی ہیں، جب کہ پاکستان کے پاس 15سے20روز کے لیے آپریشنل آئل کے ذخائر موجود ہیں۔ تاہم، پاکستان کے معروضی حالات 1965ء اور 1971ء سے کافی مختلف ہیں۔
نیز، عصرِ حاضر میں روایتی جنگوں میں بھی ٹیکنالوجی کا عمل دخل خاصا بڑھ گیا ہے۔ زیادہ قابلِ فکر اَمر یہ ہے کہ پاکستانی بندرگاہوں پر ایسا انفرااسٹرکچر میسّر نہیں ہے کہ جہاں درآمدی تیل کا خاطر خواہ ذخیرہ محفوظ رکھا جا سکے۔ یاد رہے کہ صرف کراچی پورٹ پر دو تہائی تیل درآمد کیا جاتا ہے، پورٹ قاسم پر فرنس آئل اور ڈیزل درآمد کیا جاتا ہے، جب کہ گوادر بندرگاہ کے اس سلسلے میں کارآمد ہونے کے بارے میں فی الوقت حُکّام نے کچھ نہیں بتایا، البتہ یہ اطلاعات ہیں کہ گوادر پورٹ میں پاکستان کا حصّہ 9فی صد ہے۔ کراچی پورٹ کی گنجایش بہت کم ہے اور دُنیا میں کسی ایک بندرگاہ کو زیادہ مصروف نہیں رکھا جاتا۔
لہٰذا، اگر کوئی حادثہ پیش آ جائے، تو تیل کی شدید قلّت پیدا ہو سکتی ہے۔ حادثات کے تدارک کے لیے سیکوریٹی پروٹوکول پر سو فی صد عمل درآمد یقینی بنانا ضروری ہے۔ پھر بعض آئل ٹینکرز جدید ٹیکنالوجی سے لیس نہیں اور ان میں آگ لگنے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ سو، کبھی آپریشنل ترسیل میں تاخیر ہو جائے، تو مُلک کے لیے نا خوش گوار صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جنوری 2015ء میں مُلک میں پیٹرول کی شدید قلّت پیدا ہو گئی تھی ۔ اس وقت کراچی بندرگاہ کی حالت یہ ہے کہ اس پورٹ کے تیل اُتارنے کے لیے وقف تین میں سے صرف ایک برتھ ہی فعال ہے اور باقی دونوں خراب ہیں۔ ہر چند کہ آج تک پارلیمان میں انرجی سیکوریٹی پر کبھی بحث نہیں ہوئی، لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں پیش رفت کی امید ہے۔ یاد رہے کہ پورٹ کا نظم و نسق وفاق کے پاس ہے۔
دوسری جانب پورٹ قاسم پر گیس اسٹوریج کے انتظامات بھی ناکافی ہیں اور قطر سے درآمد کی جانے والی آر ایل این جی یہیں اُتاری جاتی ہے۔ مذکورہ گیس کی درآمد کا معاہدہ اور اس کے مالیاتی پہلو پاکستان کے حق میں نہیں اور اسے گزشتہ حکومت کی نا اہلی قرار دیا جاتا ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انرجی سیکوریٹی، معاشی استحکام سے مربوط ہے، جب کہ موجودہ حکومت بھی ٹیکس چوروں سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری جانب 2009ء سے غیر منصفانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام سے وصول کیے جانے والے ٹیکس نے عام آدمی کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بیڈ گورنینس کے نتیجے میں قیمتیں بے قابو ہو چُکی ہیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے مُلک میں شاہ راہیں تو تعمیر کی جا رہی ہیں، لیکن بندرگاہوں پر کسی نے توجّہ نہیں دی۔
اس وقت پاکستانی معیشت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ البتہ اقتصادی اشاریوں میں بتدریج بہتری واقع ہو رہی ہے۔ نیز، سیّاحت، معدنیات اور زراعت میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ حال ہی میں برطانیہ نے بھی پاکستان کو محفوظ مُلک قرار دیا ہے۔ تاہم، سیّاحتی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بیرونی سرمایہ کاری اور ترجیحات میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ برآمدات میں اضافے کے لیے ٹیکسٹائل کے علاوہ سیّاحت اور زراعت پر توجّہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ٹِڈی دَل کا حملہ زراعت کے لیے نہایت خطرناک ہے اور اگراس کے تدارک کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے، تو نقصانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
مزید برآں، عالمی بینک کی اس ہدایت پر عمل نہ کیا جائے کہ سب کچھ منڈی کی قوّتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، کیوں کہ مارکیٹ میں بھی تو مافیاز ہی بیٹھی ہیں۔ یاد رہے کہ اگر سماجی معاملات کے فیصلے منڈی کی قوّتوں کے حوالے کر دیے جائیں، تو دُنیا راکھ کا ڈھیر بن جائے، کیوں کہ منڈی ایک ایسی بے لگام اور بے رحم طاقت ہے، جس کی دسترس سے کم زور طبقات محفوظ نہیں رہ سکتے۔ منڈی کے راج میں انسان منافع خوری کے لیے بے رحم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے کینز نے کہا تھا کہ ’’سرمایہ داری اپنی برائیوں کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔‘‘