میٹروپولٹین شہر کراچی جو پاکستان کا ترقی یافتہ ترین شہر کہلاتا ہے۔ مگر دوسری طرف کچی آبادیوں کے نام پر جگہ جگہ ناجائز قابضین (Encroachers) کے قبضے۔ اور قبضہ کی انتہا یہ ہے کہ سرکاری زمینوں پہ تو ناجائز تجاوزات کے ساتھ ساتھ آنے جانے والے راستوں کو بھی نہ چھوڑاگیا۔ امیر علاقے ہوں یا غریب علاقوں گھر کے سامنے کی سڑک کو گھر کا حصہ بنالینا اس شہر کے لوگوں کا خاصہ ہے۔ جس کی وجہ سے سڑک کا سائز چھوٹا ہوتاچلاجارہا ہے۔ امیر علاقوں میں قبضے کے باوجود ایک وقت میں دو گاڑیاں گزرجاتی ہیں۔ کیونکہ یہاں سڑکیں نسبتاً چوڑی ہوتی ہیں۔ لیکن چھوٹے علاقوں میں چونکہ گھر کے سائز کے حساب سے سڑکیں نسبتاً پتلی رکھی جاتی ہیں اور پھر مکان میں شمولیت کے بعد آدھی بھی نہیں رہتیں۔ ذراایک اورتمہید باندھ لی جائے پہلے مکان تعمیر کیا جاتا تھا تواس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ اگر کسی کا انتقال ہوگا تو گہوارہ آرام سے نکل جائے گا۔ سیڑھی اتنی کشادہ ہوکہ آرام سے گہوارہ گزار لیا جائے۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ دروازے اور سیڑھیاں تنگ ہوگئیں کہ جیسے اب سائنس نے ترقی کرلی ہے تو مرناہی نہیں ہے۔ لہذا تنگ ترین جگہ سے آرام سے ایک اکیلا شخص گزرسکتا ہے۔ لہذا سڑکیں ، سیڑھیاں اور دروازے تنگ کردیئے گئے اور گلیوں کا سرے سے خاتمہ ہی کردیا گیا۔ اب ایک مکان کی کھڑکی دوسرے مکان کی کھڑکی سے ٹکراتی ہے۔حاصل تمہیدیہ ہے کہ ایسے میں جب کوئی ناگہانی ہوجائے تو بچاؤ (Rescue) کے سارے راستے بند ہوتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال گولیمار میں ہونے والا حادثہ ہے۔ ذرا سوچئے 40 گزکی زمین پرچار منزلہ فلیٹ یعنی ہر منزل پر کئی خاندان آباد۔ یقیناً آگے پیچھے سے گھیر کر 40 گز کو 50 گزکرلیا گیا ہوگا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا 40 گز کی زمین پر چا رمنزلہ فلیٹ بناتے ہوئے اس کی بنیادیں بھی اتنی گہری کھودی گئیں تھی؟ کیا اس بلڈنگ کے رہنے والوں نے اس فلیٹ کو خریدتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اس کی بنیاد یں کتنی مضبوط ہیں؟یامسلمان ہونے کے ناطے مسلمان بھائی پر آنکھ بندکرکے اعتبار کرلیا کہ سب کچھ صحیح ہوگا؟ دوسرے کیا اس قدر تنگ سڑک کو دیکھتے ہوئے انہیں اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کبھی کوئی حادثہ ہوگیاتو بچاؤ (Rescue) کیسے ہوگا؟ اب حالت یہ ہے کہ کئی روز گزرنے کے باوجود ملبے میں دبےلوگوں کو ابھی تک نکالا نہیں جاسکا ہے۔ کیونکہ بلڈوزراور کرین اس تنگ گلی میں داخل ہی نہیں ہوسکتے۔ لہذا صرف بیلچہ اور ہتھوڑے کے ذریعے ملبہ ہٹایاجارہا ہے۔ ایسے میں متاثرہ خاندان روتے ہوئے شکایت کرتے ہیں کہ امداد نہیں آرہی ہے۔ بہت سست بچاؤ (Rescue)کا عمل ہے۔ یقیناً یہ بہت تکلیف کے لمحات ہیں۔ پورے پورے خاندان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ لیکن اب عقل آجانی چاہیئے کہ اب ہر کوئی اس بات کو ذہن میں رکھے کے ہمارے ہی غلط رویوں اور حرکات کی بدولت ہمارے لیے مشکلات کھڑی ہوتی ہیں۔ یقیناً یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سڑکوں کے سائز کو مناسب رکھا جائے تاکہ مشکلات اور حادثات میں Rescue Services باآسانی اپنی خدمات انجام دے سکیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیںکہ یہ عوام ہی کا رویہ ہوتا ہے جو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (حکومتی ادارہ) کو رشوت دے کر غلط قسم کی تعمیرات کر اتاہے۔ جو بعد میں انہی کے لیے زحمت بنتی ہے۔ اگر ہم عوام ہی یکجہتی کرلیں اور ان اداروں کے لاکھ مانگنے پر رشوت نہیں دیں تو یقیناً غیرقانونی تعمیرات شہر کے کسی حصے میں نہ ہوںگی۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم عوام بھی چند پیسوں
کے خاطر اپنی جان کا سودا کررہے ہوتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ مشکل وقت ہم پر نہیں آئے گا۔غیرقانونی اراضی پر گھر بنانا بغیر کسی تصدیق کے ، اونچی اونچی بلڈنگ کھڑی کرلینا بغیر گہری بنیادوں کے، سرکاری اراضی پر قبضہ کرکے مکان تعمیر کرلینا اور پھر اپنے حقوق کی دوہائی دینا۔کیا یہ سب حکومت کررہی ہے یا عوام ؟اور پھر کسی نہ کسی اہم شخصیت یا پارٹی کا ووٹ بنک بن کر اپنی مظلومیت کا پرچار کرنا، اور مظلومیت ثابت کرتے ہوئے حقوق کا مطالبہ کرنا اور پھر اپنے سیاسی رہنماؤں کا آلہ کار بن کر ان کے جلسے جلسوں کی زینت بننا اور جواباً غیرقانونی زمین پر قبضہ کے کاغذات کے ملنے کاوعدہ جو کبھی پورا ہوا بھی ہو تو چالیس پچاس سال کے بعد ذی شعور، معاملہ مہم، زیرک اور فرض شناس چیف جسٹس کے بعد سب ختم۔ لہذا اب عوام کو بھی اپنی آنکھیں ، عقل کو کھولنا چاہیئے اورمکمل آگاہی حاصل کرکے ہی فیصلہ کرنے چاہئیں۔ ورنہ۔۔۔۔۔
minhajur.rab@janggroup.com.pk