جاپانی ادب کے موجودہ عہد سے تعلق رکھنے والے جاپانی ادیب ’’سوزوکی کوجی‘‘ نہ صرف جاپان میں بہت مشہور ہیں، بلکہ اب ان کی کہانیوں کا طلسم دوسری زبانوں کے پڑھنے والوں کو بھی متاثر کر رہا ہے، صرف جاپان میں ان کی کہانیوں کی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ کہانیاں ٹیلی وژن پروڈکشن کے لیے مستعار لی گئیں اور جاپانی کامکس ’’مانگا‘‘ کے لیے بھی ان سے استفادہ کیا گیا۔ جاپانی سینما اور ہالی ووڈ میں بھی ان کی مقبول کہانیوں پر فلم بنیں، ان تخلیقی کوششوں کو قارئین اور شائقین دونوں نے بہت پسند کیا۔ ’’سوزوکی کوجی‘‘ نے جاپان کے کئی نامور ایوارڈز حاصل کیے اور متعدد اعزازات کے لیے انہیں نامزد بھی کیا گیا۔
’’سوزوکی کوجی‘‘ 1957 کو جاپان کے شہر’’ہمامستو‘‘ میں پیدا ہوئے۔جاپان کے عصری ادب میں’’سوزوکی کوجی‘‘ ایک مقبول نام ہے۔ ان کی کہانیوں کے بڑے موضوعات، تجسس، پرسراریت، اوہام پرستی، طلسم، پدری شفقت اور سائنس فکشن ہیں۔ ان کا سب سے مشہور ادبی کام’’رِنگ ناول سیریز‘‘ ہے، جس کو پورے جاپان میں بے حد پذیرائی ملی۔ ان ناولوں کی سیریز پر صرف جاپان میں آٹھ فلمیں، دو ٹیلی وژن سیریز، چھ اخذ شدہ مانگا کامکس، دو ویڈیو گیمز سمیت مختلف زبانوں کی عالمی سینما میں بننے والی چھ فلمیں ہیں۔ ان کی مختصر کہانیوں کی کتاب’’ڈارک واٹر‘‘ جو پہلی مرتبہ 1996 میں شائع ہوئی، اس میںہی ایک کہانی’’بہتا ہوا پانی‘‘ بھی تھی، جس کو ایک جاپانی فلم ساز نے طول دے کر اسکرین پلے میں بدلوا دیا، پھر یہ کہانی بطور ناولٹ اور ناول پڑھی بھی جانے لگی۔ اس کو دونوں صورتوں میں پسند کیا گیا، یوں اس مختصر کہانی سے ناول میں ڈھلنے والی کہانی پر کئی فلمیں بنیں، جن میں سے ہالی ووڈ کی فلم اور مذکورہ ناول کو یہاں منتخب کیا گیا ہے۔
’’ڈارک واٹر‘‘ یعنی گدلا پانی کو متعلقہ اصطلاح کے تناظر میں یہ نام دیا گیا ہے، ورنہ کہانی کا اصل عنوان’’فلوٹنگ واٹر‘‘ یعنی بہتا ہوا پانی تھا۔ فلم میں اس پانی کو سیاہی مائل گدلا دکھایا گیا ہے۔ کہانی کے مطابق، ایک خاتون جو اپنے شوہر سے طلاق لیتی ہے اور اپنی کم عمر بیٹی کے ساتھ رہائش کے لیے ایسے فلیٹ کا انتخاب کرتی ہے، جو پوش علاقے میں تو ہے، لیکن مخدوش حالت میں ہے، سستا ہونے کی وجہ سے وہ منتقل ہوجاتی ہے ، پھر وہاں رہنے کی سب سے بڑی وجہ نزدیکی اسکول ہے، جہاں اس کی بیٹی بہت اچھی تعلیم حاصل کرسکتی ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر وہاں رہنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
کہانی میں ابتدائی طور پر ہی منظر کشی کی گئی ہے، اس عمارت میں جو فلک بوس لیکن خستہ حال بھی ہے، کچھ منفی قوتوں کے زیر اثر ہے، عمارت کی لفٹ اور خاتون کے فلیٹ میں گدلا پانی قطرہ قطرہ بن کر رِستا ہے، بعد میں یہ صورتحال شدت اختیار کرلیتی ہے۔ متاثرہ خاتون پڑوسیوں سے بھی مدد لیتی ہے، لیکن سدباب نہیں ہو پاتا اور دن بدن حالات ابتر ہوتے جاتے ہیں۔ یہ کہانی انہی حالات سے لڑنے کی داستان ہے، کس طرح وہ خاتون ہمت سے کام لیتے ہوئے ان حالات کا سامنا کرتی ہے، لیکن پھر ایک موڑ ایسا آتا ہے، جب اسے وہاں سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ ڈرامائی انداز میں لکھی گئی کہانی پرمصنف کی بھرپور گرفت ہے، جس کو پڑھتے ہوئے قاری کھو جاتا ہے۔
اس ناول پر 2002 میں جاپانی فلم جبکہ 2005 میں’’ڈارک واٹر‘‘ کے نام سے ہالی ووڈ میں انگریزی فلم بنائی گئی۔ ہالی ووڈ کی اس فلم کا اسکرین پلے امریکی کہانی نویس’’رافیل ایلی گیسز‘‘ نے لکھا اور برازیلی فلم ساز’’والٹر سالیس‘‘ نے ہدایات دیں جبکہ امریکی اداکارہ’’جینفر کونلی‘‘ نے خاتون ماں کا مرکزی کردار بہت عمدگی سے نبھایا اور آٹھ سالہ بچی’’ایریل گیڈ‘‘نے اپنی شاندار پرفامنس سے اپنے کردار کوامر کر دیا، ہالی ووڈ کے دیگرکئی نامور اداکار بھی اس فلم کا حصہ تھے، لیکن کہانی کاانحصار دونوں ماں بیٹی کے کرداروں پر ہی ہے۔ باکس آفس پر اس فلم کو درمیانہ ردعمل موصول ہوا، البتہ ناول کی شکل میں زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔