بقائے نسلِ انسانی ہی سے جڑا ہوا ایک دوسرا تصور جو ترقی پسندی کی اساس بھی ہے، دنیا کو موت کی ان قوتوں سے محفوظ رکھنے کا تصور ہے جو قوتیں خود انسانی برادری میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ دنیا کے امن کو تہہ وبالا کرنے والے لوگ طرح طرح کی پہچان رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے معاشروں پرغاصبانہ تسلط قائم کرتے ہیں، کچھ اپنے ملکوں کی فوجیں لے کر دوسرے ملکوں پر چڑھ دوڑتے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو خود جنگوں میں اترنے کے بجائے دنیا کو جنگوں کی دوزخ میں دھکیلنے کے لیے نت نیا اسلحہ بناتے ہیں اور اس کو منہ مانگے داموں فروخت بھی کرتے ہیں۔ سو دنیا میں امن کا پیغام ایک ایسا مقصد قرار دیا جا سکتا ہے جس کے حصول کے بغیر ہم زمین پر کوئی تعمیر ی کام اور کوئی خوبصورت تجربہ نہیں کرسکتے۔ کسی تعمیری کام یا کسی خوبصورت تجربے کے تسلسل کی ضمانت نہیں دے سکتے۔معروف مفکر اور امنِ عالم کے داعی برٹرینڈرسل نے اپنی تصنیف ’ کیا انسان کا مستقبل ہے؟‘ میں بڑے نکتے کی بات لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر انسان نے اپنی حرصِ ملک گیری سے نجات حاصل کرلی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُس کا اب تک کا کئی ہزارسال کا سفر تو محض آغازِ سفر ہی تھا اور یہ کہ ترقی اور امکانات کی بے کنار دنیا تو ابھی اُس کے سامنے غیر دریافت شدہ کھڑی ہے۔ لیکن اگر اُس کی حرص وہوس اسی طرح جاری رہی تو سمجھیںکہ وہ اپنے سفر کے اختتام پر پہنچ رہا ہے۔ یہ فیصلہ انسان کو خود کرنا ہے کہ وہ اپنی تاریخ کاپیش لفظ لکھ رہا ہے یا اس کا تتّمہ سو ماضی کی طرح آج بھی امن کی بات ترقی پسندی کا ناگزیر حصہ ہے۔
اسی مقصد سے مربوط ایک تیسرا تصور مختلف اقدار، عقائد اور تصوارات کے درمیان پر امن بقائے باہمی اور ہم آہنگی کا تصور ہے۔ اس ضمن میں ادب کا کردار کلیدی نوعیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب جتنا آگے دیکھ سکتا ہے اور جتنی گہرائی تک اتر سکتا ہے اتنی نظر اور اتنی وسعت کسی اور چیز کو حاصل نہیں۔ شاعر کی آنکھ سے دیکھو تو گلشنِ نا آفریدی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے اور سارے دہر کو آئنہ خانہ بھی بنایا جا سکتان ہے۔ سو کسی دوسرے ادب سے یا کسی دوسری ثقافت سے اس کی اچھی قدروں کو اخذ کر لینا اور اپنی بہترین قدروں کو دوسری ثقافت کے قلب تک پہنچا دینا ادب اور ادیب ہی کا کار منصبی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہر زبان اور ادب کے پڑھنے والے اور لکھنے والے دوسروں کی زبان و ادب سے اتنی ہی محبت کرسکیں جتنی وہ اپنی زبان اور ادب سے کرتے ہیں۔
ہمیں اس بات کو قبول کرنے میں ہر گزتامّل نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ تکثیریت اور کثیرالثقافتی دنیا بن چکی ہے۔ اس دنیا میں پنپنے اور خود اپنی زبان وثقافت کی نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کی زبان وثقافت کو نہ صرف قبول کیا جائے بلکہ ان کی موجودگی کو اپنے لیے کار آمد اور قابلِ فخر سمجھا جائے۔ میرے لیے ترقی پسند ادبی نظریہ اور تصور یہ ہونا چاہیئے کہ میں اس بات پر فخر محسوس کروں کہ میں ایک ایسی دنیا کا باشندہ ہوں جس میں میری زبان، میرے ادب اور میر ی ثقافت کو اتنی ہی اچھی زبانوں، ادبیات اور ثقافتوں کی ہم رکابی حاصل ہے جتنی اچھی میری اپنی زبان، ادب اور ثقافت ہیں__ اپنے ہونے پر فخر کا مطلب اگردوسرے کے ہونے پر فخر کے ہم معنی قرار پائے تو یہی ترقی پسندی کہلائے گی۔
ترقی پسندی کی ایک چوتھی اہم جہت سماجی انصاف کی خواہش ہے۔ انسان نے سماجی ارتقا کے سفر میں جو بہت سی بے بضاعتیاں اپنے ساتھ شریک سفر کرلی ہیں ان میں سماجی نابرابری اور استحصال سب سے بڑی بُرائی ہے۔ یہ سماجی ناانصافی لامحالہ استحصال اور طبقاتی اونچ نیچ سے پیدا ہوتی ہی۔ اس کے نتیجے میں انسان ایک دوسرے سے دور ہوتا ہے، نفرتیں پروان چڑھتی ہیں، امتیاز ات جنم لیتے ہیں اور انسانی معاشرہ ایک بڑے عذاب کا شکار بن کر رہ جاتا ہے۔ ترقی پسندی تقاضا کرتی ہے کہ وہ سب امتیازات جو طبقاتی اونچ نیچ کا شاخسانہ ہیں اور جو انسانوں کواجتماعی خوبیوں کے لیے کام کرنے کے بجائے ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات کے لیے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں ان سب امتیازات کے خلاف ذہن تیار کیے جائیں اوران کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ ان امتیازات میں مذہب اور رنگ ونسل کے امتیازات بھی شامل ہیں اور صنفی امتیازات بھی۔ ترقی پسندوں نے ہر زمانے میں ان امتیازات کے خلاف لکھا ہے اور آج اگر دنیا میں ان کے خلاف ایک بڑی اور مضبوط رائے عامہ بن چکی ہے تو یہ کارِ خیر انجام دینے میں ترقی پسند تخلیق کاروں اور فنکاروں کا حصہ کسی سے کم نہیں ہوگا۔(جاری ہے)